’مسلمانوں کو انڈیا سے نکالنے کا وقت آ گيا ہے‘

سادھوی نے یہ متنازع بیان اتراکھنڈ کے معروف شہر روڑکی میں دیا ہے
انڈیا میں اپنے متنازع بیانات کے لیے معروف ہندو رہنما سادھوی پراچی نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو انڈیا سے نکالنے کا وقت آ گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق انھوں نے کہا ’ملک کو کانگریس سے پاک کرنے کا مشن مکمل ہو چکا ہے اور اب مسلمانوں سے بھی پاک کرنے کا وقت آ گيا ہے۔‘

تاہم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سادھوی کے اس بیان پر کہا ہے کہ تنظیم نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیا جائے۔

تنظیم کے جنرل سیکریٹری سریندر جین نے بی بی سی سے کہا: ’وہ الیکشن لڑ چکی ہیں۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ ہمارا کوئی بھی عہدیدار الیکشن نہیں لڑ سکتا۔‘

وی ایچ پی رہنما نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیا جائے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔

’ہمارا یہ موقف ہے کہ انڈیا ہمیشہ سے سب کے لیے ہے۔ مسلمان پہلے یہاں تاجر کے طور پر آئے تھے۔ ہم نے ہی انھیں پہلی مسجد بنا کر دی تھی۔ ہمارا ملک کے مسلمانوں سے جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا جھگڑا ان لوگوں کی ذہنیت سے ہے جو کوئی بھی بات ہو تو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں، یا پاکستان کا پرچم لہرائیں، ہمارا جھگڑا اس ذہنیت سے ہے، افراد سے نہیں۔‘

وشو ہندو پریشد نے سادھوی کے اس بیان پر کہا ہے کہ تنظیم نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیا جائے.ادھر بی جے پی نے بھی سادھوی کے اس بیان سے گریز کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے سربراہ امت شاہ نے کہا ’پارٹی سادھوی پراچی کے متنازع بیانات کی حمایت نہیں کرتی، پارٹی کا واحد ایجنڈا ترقی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے مطابق سادھوی پراچی نے یہ بیان اتراکھنڈ میں دیا جو دارالحکومت دہلی سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

سادھوی پراچی کے اس متنازع بیان پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے۔

خان یوسف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’مرکزی اور ریاستی حکومتیں سادھوی پراچی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی ہیں؟‘

سوپنل لکھتے ہیں: ’وہ اپنے بولنے کی آزادی کے حق کا استعمال کر رہی ہیں۔ اگر آپ کو پسند نہیں ہے، تو مت سنیے۔‘

صحافی روپا سبرامنیم لکھتی ہیں: ’موقع آ گیا ہے کہ انڈیا کو سادھوی پراچی / وی ایچ پی سے آزاد کیا جائے۔ مودی نے انھیں گجرات میں بے محل بنا دیا تھا۔ اگلا مرحلہ۔ ملک گیر ہے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے