ایک اور باغی

نجانے کیوں مجھے باغیوں سے شدید محبت اور انس ہو جاتا ہے، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی نسل، رنگ، ملک، مذہب یا نظریے سے ہو. قبل ازیں میں ابوبکر الرازی، گیلیلیو، ایڈسن، ہاکنگ اور پابلو پیکاسو کی بغاوتوں پہ قلم آزمائی کر چکا ہوں. آج ایک اور باغی کا قصہ چھیڑ رہا ہوں. شاید بغاوت میرے اندر موجود ہے. اور باغیوں سے انس کا سبب یہ بھی ہے کہ میں خود ابھی تک چاہ کر بھی بغاوت کی راہ پر چل نہیں پایا.

باکسنگ میں "کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر” نے اپنا کیریئر ایک شوقیہ کھلاڑی کی حیثیت سے شروع کیا اور مکمل طور پر کامیاب رہا. بارہ سال کی عمر میں اُسکی سائیکل چوری ہو گئی. وہ مارٹن نامی پولیس آفیسر کے پاس شکایت لیکر گیا اور کہا کہ اگر چور مل جائے تو حوالات میں ڈالنے کی بجائے چور کو میرے حوالے کرنا، میں خود اسکی ٹھکائی کروں گا. مارٹن نے اُس نوعمر کی دلیری اور خوداعتمادی کو دیکھتے ہوئے باکسنگ کھیلنے کا مشورہ دیا. اِس طرح ایک عظیم باکسر کے کیرئیر کا آغاز ہوا.

ان کو شہرت اور مقبولیت اس وقت میسر آئی جب رومن اولمپِک میں انہوں نے سونے کا تمغا جیتا، یہ 1960ء کا سن تھا. تمغہ جیتنے کے بعد بھی انہیں اپنے شہر میں نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ وہ سیاہ فام تھے. انہوں نے اولمپک میں اپنا جیتا ہوا تمغہ دریائے اوہائیو میں اس لیے پھینک دیا کیونکہ اُنکو ایک ریستوران میں معمولی نوکری دینے سے بھی انکار کر دیا گیا کیونکہ وہ سیاہ فام تھے. یہ بغاوت تھی.

سونی لسٹن ایک بہت بڑا باکسر تھا، بلکہ وہ استادوں کا استاد اور ماہر باکسر تھا. کیسیئس کلے نے فروری 1964ء میں باکسنگ کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو کھلا چیلنج کر دیا. انہیں مقابلے کے چھٹے راؤنڈ میں شکست دے دی۔ اُس وقت رِنگ کے اندر کیسیئس کلے دھاڑ دھاڑ کر کہہ رہا تھا "میں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے”. بعد ازاں مسلسل سات مقابلوں میں اُس عہد کے مایہ ناز مکے باکسر ایک ایک کر کے کیسیئس کلے کے ہاتھوں چِت ہو گئے.

1964ء میں ہی کیسیئس کلے نے نیشن آف اسلام نامی ایک تنظیم کی رکنیت حاصل کر لی. یہ‏‎ ‎ایک دینی اور سماجی ‏و سیاسی تنظیم ہے جس کو والس فارڈ محمد نے 1930ء میں امریکہ میں قائم کیا۔ اس کے بانی ‏کے مطابق اس کے قیام کا مقصد امریکہ اور باقی دنیا میں سیاہ فام مردوں اور عورتوں کی ‏روحانی، ذہنی، سماجی اور اقتصادی حالت کا احیاء تھا۔(http://www.noi.org)

نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کرنے کیساتھ کیسیئس کلے نے اپنا نام تبدیل کرکے محمد علی کلے رکھ لیا. محمد علی کلے کا کہنا تھا کہ "کیسیئس کلے غلامانہ نام ہے۔ میں نے اس کا انتخاب نہیں کیا اور میں نے اسے نہیں چاہا۔ میں محمد علی ہوں ایک آزاد نام۔ اور میں لوگوں سے اصرار کرتا ہوں کہ جب مجھ سے یا میرے بارے میں بات کریں تو اس کا استعمال کریں.” ایک اور بغاوت تھی اور کھلم کھلا بغاوت. اِس کے بعد امریکہ میں اُنکی مخالفت شروع ہو گئی. قبولِ اسلام کے بعد لسٹن کے ساتھ دوبارہ مقابلہ ہوا تو اُسے دیکھنے کیلئے صرف دو ہزار افراد آئے. اُس دن مقابلے کے بعد محمد علی نے کہا تھا کہ:

"میں امریکہ ہوں. میں تمہارا حصہ ہوں جسے تم نہیں پہچانتے. لیکن میرے عادی ہو جاؤ. سیاہ، پراعتماد، مغرور بانکا. میرا نام تمھارا نہیں. میرا دین تمھارا نہیں. میرا ہدف میرا اپنا ہے. میرے عادی ہو جاؤ.”

جنگ ویت نام 1959ء سے 30 اپریل 1975ء تک جاری رہنے والا ایک ایک عسکری تنازع تھا جس میں عوامی جمہوریہ ویت نام (المعروف شمالی ویت نام) کی اشتراکی افواج اور قومی محاذ برائے آزادئ جنوبی ویت نام (المعروف ویت کانگ) کے دستوں نے اشتراکیت مخالف جمہوریہ ویت نام (جنوبی ویت نام) اور اس کےاتحادیوں بالخصوص امریکہ کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی اور ویت نام کو ایک متحدہ اور واحد آزاد اشتراکی ریاست کے طور پر قائم کیا. اسے ویت نام تنازع اور دوسری ہند چینی جنگ بھی کہا جاتا ہے.

ویت نام کے اشتراکی حلقے اسے امریکی جنگ یا امریکہ کے خلاف جنگ مزاحمت (ویت نامی زبان: Kháng chiến chống Mỹ) بھی کہتے ہیں. اس جنگ میں ویت نامی اشتراکیوں کے اتحادی سوویت اتحاد اور عوامی جمہوریہ چین تھے جبکہ اشتراکیت مخالف جنوبی ویت نامیوں کو ریاستہائے متحدہ امریکہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ کی حمایت حاصل تھی. خاص طور پر امریکہ نے بڑی تعداد میں اپنے فوجی جنوبی ویت نام میں اتارے.

امریکی عسکری مشیر پہلی بار 1950ء کی دہائی میں ویت نام میں ملوث ہوئے جب انہوں نے فرانسیسی نو آبادیاتی افواج کی مدد کا آغاز کیا. 1956ء میں ان مشیران نے جمہوریہ ویت نام کی افواج کی تربیت کی مکمل ذمہ داری لے لی. 1965ء میں امریکی جنگی دستے بڑی تعداد میں ویت نام پہنچے اور 1973ء تک موجود رہے. ایک اندازے کے مطابق امریکہ نے اس جنگ میں اپنے ساڑھے 5 لاکھ فوجی ویت نام میں اتارے.

عالمی چیمپئن محمد علی کلے نے جنگ ویت میں شمولیت کے عہدنامہ پہ دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ اُس کی ویت کانگ سے کوئی مخالفت نہیں. یہ ایک اور بغاوت تھی، ایک بھیانک بغاوت… محمد علی کلے کو اُس کے تمام اعزازات سے محروم کر دیا گیا. اُس کو عدالت نے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی. محمد علی کلے نے اُس موقع پر کہا تھا کہ:
"لوگ مجھے وردی پہننے اور گھر سے دس ہزار میل دور جانے اور ویت نام میں بھورے لوگوں پر بم اور گولی برسانے کے لیے کیوں کہیں جبکہ اپنے لوزیانا میں ہی نام نہاد سیاہ فام کے ساتھ کتوں کا سلوک ہو رہا ہے اور انھین معمولی انسانی حقوق حاصل نہیں. میں ویت کانگ سے لڑنے نہیں جا رہا کیونکہ ویت کانگ نے کبھی مجھے نائگر (حبشی) نہیں کہا.”
محمد علی کلے ایک مشہور انسان، ایک باغی، ایک شاعر اور حقوقِ انسانی کا علمبردار…. اُس نے اپنے دشمنوں کو تگنی کا ناچ نچوایا اور نسل پرستی کو شکست دی. وہ باغی واقعی عظیم تھا. ایک بہترین باکسر اور ایک عظیم کھلاڑی سے کہیں بلند.

2001 میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملے کے بعد محمد علی کلے نے کہا کہ:
"ہمیں واقعتاً یہ چیز دکھ دے رہی ہے کہ اس کے ساتھ اسلام کا نام جڑ گيا ہے اور مسلمان پریشانی، نفرت اور تشدد پیدا کرنے میں ملوث ہیں. اسلام قاتلوں کا مذہب نہیں، اسلام کا مطلب امن ہے.”

اِسی طرح ایک انٹرویو کے دوران ایک صحافی نے نفرت بھرے انداز میں محمد علی سے سوال کیا کہ "کیا تمہیں اسامہ بن لادن کیساتھ اپنا مذہب شیئر کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہو رہی؟”

تو محمد علی کلے نے جواب دیا کہ "اگر تمہیں ایڈولف ہٹلر کیساتھ اپنا مذہب شیئر کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی تو مجھے کیوں ہو؟”

محمد علی کلے کو یہ دنیا شاید کبھی بھول نہ سکے…!

(نوٹ: یہ مضمون لکھنے میں سات کے قریب کتب اور نو کے قریب مختلف مضامین سے معلومات لی گئی ہیں، جنکا بیان یہاں ممکن نہیں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے