مذہبی ولبرل انتہا پسندی کا شکار سماج

ایک دفعہ مدرسے میں آنے والی ایک ٹیلیفون کال سننے کا اتفاق ہوا ۔سلام کے بعد کال کرنے والا شخص بولا میں اپنی بچی کو مدرسے میں داخل کروانا چاہتا ہوں . میں نے کہا خوشی کی بات ہے جناب آپ کی بچی نے پہلے کچھ پڑھا ہوا بھی ہے تو محترم بولے ہاں چھٹی میں تین بار فیل ہو گئی ہے ،میں نے سوچا مدرسے میں داخل کروا دوں اللہ کا نام سیکھ لے گی . میرے منہ سے بے ساختہ نکلا مدارس کا المیہ یہ ہے کہ وہاں فیل ہونے والوں کو بھیجا جاتا ہے تو وہ بھی برجستہ بولے ،اب میری دوسری بچی بی اے کر رہی ہے میں اس کو تو نہیں مدرسے میں چھوڑ سکتا اور میں نے جواب میں تمیز سے کہا جناب پھر وہ جو آ پ کا ناکارہ مال جو آپ مدرسے میں ڈالنا چاہتے ہیں، اس کو بھی گھر رکھیں ،اللہ کے دین کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب یہ خبر اساتذہ تک پہنچی تو میری خوب خبر لی گئی کہ شاید وہ بچی اسی طرح ہدایت پانے میں کامیاب ہو جاتی میری سختی کی وجہ سے وہ رہ گئی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کسی اور مدرسے کی ہی زینت بنی ہوگی ۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم دینی مدارس میں ایسے لوگوں کو بھیجتے ہیں جن کو نام نہاد تہذیب یافتہ معاشرہ رد کر دیتا ہے ۔ جب وہ مدرسہ میں پہنچتے ہیں تو ان کا پالا ایسے اساتذہ سے پڑھتا ہے جن کو یا پڑھنا آتا ہوتا ہے یا ڈنڈہ چلانا ۔ انہوں نے کوئی ٹیچرز ٹریننگ کورس یا ورکشاپ نہیں کی ہوتی .ان کے پاس کوئی مالی ترغیبات بھی نہیں ہوتیں وہ انہی مدارس سے مار کھا کر پڑے ہوتے ہیں اور وہی طریقہ کار وہ اپنے شاگردوں پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ دو تین سال ناظرہ سیدھا کرنے میں لگا دیتے ہیں اور جب دین کو سمجھنے کا وقت آتا ہے تو دَعا یدعُوا کی گردان میں اٹک کر وہ لوگ مدرسے کو بھی خیرباد کہہ دیتے ہیں باہر نکلتے ہیں تو ان کے چہرے پر داڑھی اور ناظرہ کے علاوہ ان کو بھی دینی احکامات کا اتنا ہی پتہ ہوتا ہے جتنا مسلم گھرانے کے کسی عام مسلمان کو یا اگروہ مدرسے سے بھاگتے نہیں تو عالمیہ(درس نظامی کا انتہائی درجہ) کر لیتے ہیں عالمیہ کرنے کے بعد اگر وہ قابل ہوئے تو باہر کسی تعلیمی ادارے میں عربی اسلامیات پڑھانے لگتے ہیں اور قابل نہ ہوئے تو یہ دو بارہ کا رد شدہ مال دوبارہ مدرسے میں ہی رہ جاتا ہے۔ مدرسے کے گھٹے ماحول سے جب یہ باہر نکلتے ہیں توماریں کھا کھا کر ان کی سوچ متشدد ہو چکی ہوتی ہے پھر وہ یہ تشدد معاشرے میں عام کرتے ہیں کچھ لوگ اچھے بھی ہیں لیکن اکثریت کا حال یہی ہے۔

ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ ایک دفعہ محلے کی ایک خالہ نے بتایا قاری کا رشتہ تو بڑی بیٹی کے لئے آیا تھا لیکن وہ بہت پیاری ہے .اس کو کوئی اور بھی لے جاتا. یہ چھوٹی ذرا ماٹھی ہے ،اسی کی منگنی کر دی، وہ اللہ والا بندہ ہے اس کو خوش رکھے گا .یہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی سوچ اور ذہنیت ہے جو ہم دین سے وابستہ افراد کے لئے رکھتے ہیں ، پھر یہ لوگ جو مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان کی عادتوں اور طبیعتوں میں اتنا ہی تفاوت ہوتا ہے جتنا کہ معاشرے کے دوسرے انسانوں کی طبیعتوں میں کوئی سخت ، کوئی نرم ، کوئی متشدد ،کوئی حلیم الطبع ۔

سوال یہ ہے کہ جب آپ اس طبقے کو دیتے ہی نفرت حقارت اور مار پیٹ دیتے ہیں وہ ان کے علاوہ اور کیا لوٹا سکتا ہے ؟ تعلیمی بجٹ میں سے کتنا مدارس پر لگایا جاتا ہے ؟ کیا دینی مدارس کے اساتذہ کی بھی کوئی تربیتی ورکشاپ ہوتی ہے ؟ کیا مدرسوں میں بھی وہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جو سکولوں میں ہیں ؟ اس کے ذمہ دار مدرسے والے نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بیمار ذہنیت اور سوچ ہے جب تک اس سوچ کو بدلا نہیں جائے گا متشدد واقعات کو طاقت کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا چاہے ایک دن میں ایک ہزار لوگوں کو پھانسی دی جائے۔ لیکن اس سارے قصے میں بدنام صرف اسلام ہوتا ہے۔

ماروی سرمد اور حمداللہ کا واقعے کا بہت شور ہے ۔ جو کچھ حمداللہ نے کیا اس کو کسی بھی طرح درست نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی وجوہات کو دیکھا جانا ضروری ہے ۔ مولوی حمداللہ کا تعلق اسی مذہبی طبقے سے ہے جس کو معاشرے نے ہمیشہ رد کیا ، پھر مولوی حمداللہ کا تعلق اس خاندان اور ماحو ل سے ہے جو نسلوں سے متشدد ہیں ، اور گولی ، گالی اور گنڈاسہ کا استعمال فخر سمجھتے ہیں ،یہ لوگ جس ماحول کے پروردہ ہیں ان کو خواتین کی آواز سننے کی عادت نہیں ہوتی اس کا تعلق مذہب سے نہیں علاقے کی اقدار سے ہے ۔ مولوی حمداللہ کا اس پروگرام کے لئے انتخاب اور پھر پینل میں ایک اور انتہا پسند محترمہ ماروی کو بھی مدعو کرنا اور محترمہ کا ان کو بار بار بدتمیزی پر اکسانا ۔کیا صرف مولوی صاحب نے بدتمیزی کی ؟ محترمہ جواب میں تلاوت فرما رہی تھیں جب محترمہ کا محترم کو آگ بگولہ کرنے میں برابر کا ہاتھ ہے تو ایک اچھا اور ایک برا کیوں ؟ مجھے ان میں سے کسی بھی چیز کا تعلق اسلام سے نہیں لگ رہا تو پھر قصوروار داڑھی اور اسلام کیوں؟

حمداللہ نے جو کیا وہ اس کا ذاتی عمل ہے حمداللہ اسلام کا چہرہ نہیں ہے۔اسلام کے نام کو اتنا ہی بدنام حمداللہ نے کیا جتنا ماروی نے اور اتنا ہی چینل کے ذمہ داران نے بھی۔
کیا پینل کا انتخاب سوچ سمجھ کر نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا گفتگو کو مغلظات کی طرف جانے سے پہلے روکا نہیں جا سکتا تھا ؟ کیا پروگرام کی براہ راست نشر بند نہیں کی جا سکتی تھی ؟ پیمرا کس مرض کی دوا ہے ؟ پروڈیوسر کس لئے بیٹھے ہوتے ہیں؟

ہمارا ایک قومی مسئلہ ہے کہ ہم غیر مسلم طاقتوں پر اسلام کے خلاف سازشوں کا الزام تو لگاتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ ان کی سازشوں سے زیادہ نقصان ہمارے خود کے اعمال پہنچا رہے ہیں ۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسندی دوسری جانب سیکولر انتہا پسندی اور پھر معتدل طبقے کی خاموشی ۔

ٹی وی اور میڈیا پر انہی مذہبی لوگوں کو لایا جاتا ہے جن کے کرادر میں کوئی خامی ہوتی ہے نام لینا مناسب نہ ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں باعمل اور باعلم علمائے کرام کو چھوڑ کر میڈیا پر دکھایا جاتا ہے تو ملا صاحب کی گالم گلوچ، لال مسجد والے کی متشدد سوچ، یا کسی مسجد میں ہونے والا کوئی غیر اخلاقی واقعہ اور پھر جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس پر لبرلز گڑ کھا کر شروع ہو جاتے ہیں اور چند ملاوں کے ساتھ دشمنی میں وہ اسلامی احکام کی دھجیاں بکھیرتے ہیں جیسا کہ مولانا شیرانی کے فتوے کے ساتھ ہوا ۔ اس پر لوگ اتنا بولے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ لفظ کسی قرآنی آیت یا حدیث کے تو نہیں ہیں ۔ قرآنی آیات کا اس طرح مذاق ہم مسلمان ہو کراڑاتے ہیں ہمیں کسی کی سازش کی کیا ضرورت ہے؟ عیسائی اور یہودی اپنے دین کی احکامات پر عمل نہیں بھی کرتے تو بھی ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے دینی احکامات کا مذاق نہیں اڑاتے میں نے آج تک ایسا کوئی تماشا نہیں دیکھا ۔

ایک بیمار ذہن معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہر شخص اپنے عقائد و نظریات کو حرف آخر سمجھتا ہے ہم اسلامو فوبیا کا شکار ہو کر ملا کو گالی دینے کی آڑ میں اسلام کی جی بھر کر تذلیل کرتے ہیں ۔جی بھر کر اسلام کو بدنام کرتے اور گالی دے کر سکون سے سوتے ہیں ۔ ہر طبقہ اپنے نظریات کے معاملے میں کٹر اور شدت پسند ہے ۔

سوال یہ ہے کہ لبرلز خود کو لبرل کہنے کے باوجود اپنے نظریات میں کٹر کیوں ہوتے ہیں؟ مذہبی طبقہ نبی رحمت ﷺکا ماننے والا ہے جو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تو پھر وہ سخت کیونکر ہوتے ہیں ۔ اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں

پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں علم فراوانی میں ہے تربیت کی کمی ہے صرف علم کسی کام کا نہیں جب تک تربیت نہ ہو۔ نبی رحمت ﷺ کے زمانہ میں کوئی کالج یونیورسٹی نہیں تھی صرف صحابہ کرام کی تربیت تھی۔ یہی حال لبرلز کا ہے انہوں نے یہاں وہاں سے چیزیں سن پڑھ کر علم تو حاصل کر لیا لیکن تربیت انکی بھی خاک نہیں ہے ۔

دوسری بنیادی وجہ ہمارے اعمال و افعال سماجی رویوں کا رد عمل ہیں ۔ ملا وہی لوٹاتا ہے معاشرے کو جو اس کو معاشرے سے ملا ہے اور لبرلز بھی وہی گالیاں معاشرے کو دیتے ہیں جو ان کو فراوانی میں ملی ہوتی ہیں ۔نہ ماروی سرمد داڑھی کھینچنے کا کہتی ، نہ حمداللہ صاحب ارشادات فرماتے۔ جب تک ہماری سوچ اور سماجی رویے نہیں بدلیں گے، تربیت نہیں ہو گی تو معاشرے میں شدت پسندی یونہی رہے گی وہ مذہبی انتہا پسندی ہو یا لبرل ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے