آزاد کشمیرکی سیاست میں خواتین کےساتھ امتیازی سلوک

لفظ’’ کشمیر ‘‘دو ناموں ’’کشپ‘‘اور’’میر‘‘کا مرکب ہے ۔کشپ (کاش) حضرت سلیمان علیہ السلام کے شاہی دربار میں جنات کا سردار تھا اورمیر پریوں کی سردار اور کشپ کی محبوبہ تھی۔حضرت سلیمانؑ کے دور میں ستی سر جھیل سے پا نی نکال کر اسے آباد کرنے کا منصوبہ بنا تو کشپ نے جھیل سے نکاسی آب کی ذمہ داری اس شرط پر قبول کی کہ اسے میر کے ساتھ شادی کرائی جائے۔جھیل سے پانی نکال کر کشپ اور میر یہیں آباد ہوئے تو علاقہ کو کشپ میر سے پکاراجانے لگاجووقت کیساتھ ساتھ مختصر ہو کر’’ کشمیر‘‘بن گیا ۔

تاریخ کشمیر میں لفظ کشمیر کے وجود کے حوالے سے اور بھی متعدد روایات درج ہیں ۔ اگر مذکورہ روایت کو مستند ماناجائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں مرد اورعورت کو روز اول سے یکساں اہمیت اور درجہ ملا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس خطے پر جہاں مردوں نے حکمرانی کی وہیں خواتین نے بھی اپنا لوہا خوب منوایا۔ رانی دیدا، کوتر رانی ، سگندا دیوی اور ایشان دیوی کشمیر کی مشہور خواتین حکمران گزری ہیں۔اسکے علاوہ مہاراجوں کے بیویوں اوربیٹیوں کا بھی حکمرانی میں خاصہ عمل دخل رہا ۔

کشمیر کی پہلی غزل گو اور رومانوی شاعرہ بھی ملکہ کشمیر حبہ خاتون (زون) ہے جس کے کلام آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے بیرونی طاقتوں نے کشمیر پر قبضہ کرکے یہاں کے باسیوں سے حکمرانی کا حق چھینا جس کے باعث مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی سیاسی اور حکمرانی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع نہیں ملا ۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ریاست کے سب سے بڑے منصب پر خاتون براجمان ہے۔ محبوبہ مفتی نے اسی سال ہی وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھال کرکشمیر کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزازحاصل کیا۔حالیہ الیکشن میں چار خواتین انتخابات جیت کر اسمبلی پہنچی۔اگرچہ وادی کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے حالات کشیدہ ہیں اورریاست پر بھارتی جابرانہ قبضے کی وجہ سے یہاں لوگ سیاست کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں پھر بھی کئی خواتین نے مختلف رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔حالیہ انتخابات میں تقریبا دو درجن خواتین نے قسمت آزمائی کی۔ لیکن ریاست کے دوسرے حصے آزاد کشمیر میں اس حوالے سے صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ آزاد کشمیر ایک پرامن خطہ ہے جہاں شرح خواندگی پاکستان سے زیادہ ہے ۔لوگ سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں تاہم سیاست میں آج تک خواتین کو حوصلہ آفزائی نہیں کی گئی ۔ 21 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں بھی خواتین سیاسی ورکرز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔

آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں ٹکٹ جاری کر دئیے ۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری ہونے والی فہرستیں دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کیونکہ ان میں خواتین امیدواروں کا نام خال خال ہی نظرآتے ہیں۔معاشرے میں صنف نازک کو یکساں درجہ دینے کا دعویٰ کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی نے شمشاد عزیز اور فرزانہ یعقوب کوٹکٹ جاری کرکے کشمیری خواتین پر احسان عظیم کیا۔دختر مشرق بے نظیر بھٹو جس جماعت کی قائد رہیں وہ جماعت کئی دہائیوں سے تو یہاں متحرک رہی مگر خواتین کے لیے کوئی بڑاکارنامہ انجام نہ دے سکی۔مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی سے ایک قدم پیچھے ہے۔

انتخابات میں مضبوظ پوزیشن کی داعی جماعت صرف ایک خاتون نورین عارف کو ہی نور نظر ٹھہرائی۔ تحریک انصاف بھی روایتی سیاست کے دائرے سے باہر نہ نکل سکی۔’’ تبدیلی ہم سے ‘‘ کا منشور رکھنے والی پارٹی نے کسی خاتون کو سرے سے ہی سیاست اور اسمبلی کے قابل نہیں سمجھا۔ ریاست کے تشخص اور سب سے قدیم جما عت کہلانے والی مسلم کانفرنس صنف نازک کے ساتھ امتیازی سلوک برتتے ہوئے صرف اپنی مستقل رکن اسمبلی مہرالنساء پر ہی مہربان ہوئی۔ مرد اور عورت کو یکساں سمجھنے والی جماعت اسلامی نے بھی امیدواروں کی فہرست مرتب کرتے وقت صنف نازک کو ہاوس وائف قرار دیا۔البتہ جمو ں کشمیر پیپلز پارٹی کو فہرست بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ اس نے اپنی اکلوتی ’’خاتون ورکر اورعہدیدار‘‘سردار نبیلہ ارشاد ایڈووکیٹ کو ٹکٹ جاری کرنا ہوتا ہے سو کردیا۔

آزاد کشمیر میں کل آبادی 45 لاکھ ہے جن میں خواتین کی شرح تقریبا 38فیصد ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری حالیہ ووٹر لسٹوں کے مطابق 22 لاکھ37 ہزار ووٹ درج ہیں جن میں مرد وں کے 12 لاکھ 11 ہزار جبکہ خواتین 10 لاکھ 25 ہزار ووٹرز درج ہیں۔آبادی اور ووٹ کے حساب سے آزاد کشمیر میں خواتین اور مردوں کی تعداد میں کوئی زیادہ فرق نہیں لیکن جہاں ہر طرف مرد وں کا بول بالا ہے وہیں نصف آبادی کی نمائندگی کرنے کیلئے صرف پانچ خواتین کوٹکٹ جاری کرنا کیا زیادتی نہیں ہے ؟اگرچہ اسمبلی میں خواتین کیلئے5 مخصوص نشستیں بھی مختص ہیں تاہم ان پر جن خواتین کوجس طریقے سے لایا جاتا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے۔جب یہ پانچ خواتین اسمبلی پہنچتی ہیں تو وہ وہاں اپنی ہم جنس کی بجائے اپنے آقاوں کی نمائندگی کرتی ہیں ۔آج تک کا اسمبلی ریکارڈ سے اسی طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آزادکشمیر کی خواتین میں سیاسی شعور نہیں ہے ،کیا خواتین پڑھی لکھی نہیں ہے ،کیا وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے ۔ان جیسے کئی سوالوں کا بھر پور جواب مختلف پارٹیوں میں متحرک خواتین کی سرگرمیوں سے ملتا ہے ۔آزاد کشمیر میں اس وقت پچاس سے زیادہ خواتین مختلف سیاسی پارٹیوں میں نہ صرف متحرک ہیں بلکہ کما حقا ہو اپنی سیاسی صلاحیتوں کو بھی منواچکی ہیں اب ان کی صلاحیتوں میں نکھار کیوں نہیں آتا کیونکہ انہیں اس سٹیج پر آنے نہیں دیا جاتا جہاں سے ایک عام سیاسی ورکر ’’پبلک فگر‘‘ بن جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کی پرفیسرتقدیس گیلانی ، شازیہ کیانی ، مسلم لیگ ن لیگ کی نسیم وانی ، الماس گردیزی، پیپلز پارٹی کی صدف شیخ،کوثرڈار جیسی متحرک خواتین ہروقت اور ہر فورم پر موجود ہو تی ہیں لیکن جب ٹکٹ کا دور چلتا ہے تو اس وقت پارٹی قیادت کہیں اور گم ہوجاتی ہے۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کو ٹکٹ جاری نہ کرنے کی غفلت اور زیادتی میں صرف سیاسی پارٹی کو مورد الزام ٹھہرانا درست ہے ۔ اس کا جواب ہر سیاسی شعور رکھنے والے شہری جانتا ہوگا۔ چنانچہ آزادکشمیر میں برادری ازم ایک ناسور ہے جومعاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔یہی ناسور ٹکٹ جاری کرتے وقت سیاسی پارٹیوں کے بڑے اصحاب کے لیے ایک امتحان بن جاتا ہے۔ آزاد کشمیر میں اثر روسوخ اور برادری ازم کی بنیاد پرہی سیاست کی جاتی ہے اور انہی لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے جن کی برادری بڑی ہو یا جس کے پاس پیسے زیادہ ہو۔ ایسے میں اگر کوئی خاتون آگے آنے کی کوشش کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کی مخالفت اس کی اپنی برادری کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں خواتین کوسیاست میں مسلسل نظر اندز کیا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیاں خواتین کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی ہے ۔

دنیا بھر میں اس وقت خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحتوں کا لوہامنوا رہی ہے حتی کہ خلاء میں بھی خاتون قدم رکھ چکی ہے لیکن ہمارے ہاں آج بھی خواتین کوصرف ’’خانہ خاتون‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے