مومنین و ملحدین کے نام…!

انسانوں کے درمیان اختلافات کی پیدائش ایک ناگزیر عمل ہے. نظریات کا اختلاف، سیاسی اختلاف، بین المذاہب اختلاف، سائنسی اختلاف، تہذیبوں اور ثقافتوں کے اختلاف سے لیکر ایک ہی نظریہ کے حامل افراد کے مابین بھی اختلاف ہوتے ہیں، ایک ہی مذہب و مسلک کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں، ایک ہی جماعت کے لوگوں میں اختلاف ہوتا ہے. انسانی ذہن و قلب، نقطہ نظر اور سوچ و میلان اختلافات سے بھر پور ہے. اختلاف ہوتا تھا، ہو رہا ہے اور شاید ہوتا رہے گا. اختلاف سے بچاؤ ممکن ہی نہیں ہے. انسانوں کے مابین صد در صد مماثلت اور مطابقت کا امکان ہی نہیں ہے. قرآن کی سورہ روم کی آیت نمبر 22 انسانی اختلافات کو تسلیم کرتی ہے.

اختلافات کا معیار ہوتا ہے. اختلافات کی حد ہوتی ہے. اختلافات کے اصول ہوتے ہیں. اختلاف کا تعین بھی ہوتا ہے. اختلافات کی اخلاقیات بھی ہوتی ہیں. اور سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اختلافات کا جواز ہوتا ہے. جس کا جواز نہ ہو وہ مذمومیت ہوتی ہے، جرم ہوتا ہے اور بےوزنی ہوتا ہے. بلاجواز اختلاف غیرعلمی، غیرعقلی اور انسان دشمنی کے زمرے میں آتا ہے. ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی اختلاف بلاجواز ہو، مگر قصداً جواز کا بیان روکا جاتا ہے کیونکہ پسِ جواز ایک جرم ہوتا ہے.

ایسا نہیں کہ راست اختلافات نہیں ہوتے. سچ مچ کے اختلافات بھی ہوتے ہیں. علم و شعور کی دنیا بھی اختلافات سے پُر ہے. یہی علمی اختلافات ہی علمی ارتقاء کا سبب ہیں. اختلافات سے کئی در وا ہوتے ہیں اور کئی نویلی راہیں میسر آتی ہیں. اسی لیے تو معتبر افراد توصیف سے کہیں زیادہ تنقید کو اولیت دیتے ہیں. جس مقام پہ تنقید کی راہیں مسدود ہو جائیں، اُس مقام سے جمود و تنزلی کو فروغ ملتا ہے. کبھی کوئی تھیسز اوج تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اُس کا انٹی تھیسز دستیاب نہ ہو.

اختلاف سے کوئی منع نہیں کرے گا. مسئلہ اس وقت شروع ہوگا جب احترام کا دامن ہاتھ سے چُھوٹے گا. میں نے دیکھا کہ لوگ توہین کے مرتکب ہوتے ہیں. گالم گلوچ اور دشنام طرازی پہ اُتر آتے ہیں. الزامات دَر الزامات اور ذاتیات کی گفتگو…!!! کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا اِسکو شعور کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ تعمیری عمل ہے؟ نہیں، بالکل بھی نہیں. یہ مذمومیت ہے اور جرم ہے. یہ انسان دشمنی اور تشدد پسندی ہے.

میں نے آج تک ایسا کوئی نظریہ، مذہب اور مسلک نہیں دیکھا جو اختلافات کی راہ روکتا ہو؟ کیجیے، اختلاف کیجیے، ضرور کیجیے. مگر توہین مت کیجیے. اگر آپ مومن ہیں تو رہیں، بہت خوب، اچھی بات ہے، آپکے ایمان اور مومنیت سے کسی کا کیا لینا دینا. مگر کسی غیرمومن کو گالم مت دیجیے، لعنت میں بھیجیے. ملعون و قابلِ گردن زنی مت کہیے. آپ کسی بھی مذہب سے وابسطہ ہیں. رہیں وابسطہ… مگر کسی غیرمذہبی کو گالی مت دیں. کسی دوسرے مذہب کے پیروکار سے نفرت مت کریں. علمی بات کریں اور عملی ثبوت دیں. گالی اور لعنت ملامت مت کریں، کیونکہ فائدہ کچھ نہیں ہوگا البتہ نقصان ضرور ہوگا.

آپ ملحد ہیں اور کسی مذہب کو تسلیم نہیں کرتے، مت کریں. مگر کسی کے مذہب، مذہبی شعائر اور مذہبی شخصیات کو گالی تو نہ دیں. مسجد و مندر کی توہین کیوں؟ صلواۃ و عبادت کی بے حرمتی کیوں؟ اللہ و ایشور و بھگوان کے وجود سے انکار کیجیے، مگر گالم گلوچ کی اجازت کہاں کی انسانیت ہے؟ کسی بھی مذہب کی تعلیمات میں نقص ہے تو پیش کیجیے، علمی و شعوری دلیل دیجیے مگر توہین کا مقصد تو سیدھا سادہ تصادم ہے. آپ کو پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات یا نظریات سے اختلاف ہے تو بتائیے، مناظرہ کیجیے، بحث کیجیے. مگر توہینِ پیغمبر کا حق آذادیِ اظہارِ رائے بالکل بھی نہیں. بدھا سے اختلاف کیجیے، بدھا کو گالی مت دیجیے. کسی کی کرپان کی توہین ایک گھٹیا بات ہے. کسی کے مذہب کی بےعزتی قابلِ گرفت عمل ہے.

لہذا اختلاف کریں، اپنی رائے دیں، اپنی سوچ و فکر کا اظہار کریں مگر تمیز کیساتھ، مگر احترام کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے. سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پہ مخالف سوچ کے افراد کے مابین بحث نے نہایت اوچھا طریق پا لیا ہے. گالیاں دی جاتی ہیں، فحش اور غلیظ الفاظ بَکے جاتے ہیں. یہ کیا ہے؟ کیا یہ مذہبیت ہے؟ کیا یہ عقلیت ہے؟ نہیں یہ بربریت ہے اور فسطائیت ہے.

مجھے بذاتِ خود بحث کا تجربہ ہے. فیس بُک پہ مومنین سے یَاداللہ ہے، ملحدوں سے ربط ہے، سوشلسٹوں سے تعلق ہے، لبرلز سے یارانہ ہے. میری تحریریں، بلاگ اور پوسٹ بہت متنازعہ ہوتی ہیں. خوب بحثیں ہوتی ہیں. خوب سوال جواب ہوتے ہیں. مگر کبھی کسی کو جارحانہ رویہ پہ مجبور نہیں کیا. اگر کوئی جان بوجھ کر جارح و دشنام طراز بن رہا ہوتا ہے تو "السلام علیکم” کہہ کر بات گول کر جاتا ہوں. اگر کوئی پیچھے پڑ جائے تو "لکم دینکم ولی دین” کا حوالہ دیکر بحث کو سمیٹ لیتا ہوں. لہذا میری پوسٹ، بلاگ اور کالم ایسی نازیبا باتوں سے پاک رہتے ہیں.

یہی ایک احسن طریق ہے. اختلاف کیجیے مگر احترام کیساتھ. اختلاف کی بنیاد تعمیری ہونی چاہیے۔ نیز اختلاف کے اصولوں سمیت احتساب عمل بھی کرنا چاہیے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے