عالم برزخ میں امجد صابری اور حکیم سعید کا مکالمہ

یہ ایک وسیع و عریض ڈرائنگ روم نما کمرہ تھا۔دیوار کے دونوں اطراف آرام دہ کرسیاں لگی ہوئی تھی۔کمرہ کی ہر شے ایک عجیب سی دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ لمبا تڑنگا قوال اپنے آپ کو اچانک اس نامانوس جگہ پر پاکرحیران ہورہاتھا۔ ابھی چند لمحوں پہلے وہ افطار ٹرانسمیشن میں شرکت کے لئے راستے میں ہی تھا کہ ایک موٹرسائیکل سوار نے اس پر گولیوں کی بو چھاڑ کر دی۔ظالم نے اتنی گولیاں امجد صابری کے جسم میں اتار دیں کہ جسم اور روح کا رشتہ چند ساعتوں میں ہی منقطع ہوگیااور یہ بیچارہ چینل کے سیٹ کی بجائے یہاں آپہنچا۔

امجد کو یہاں اپنا آپ بہت ہلکا لگ رہا تھا اوریہ سب کچھ ایک خواب کی مانند محسوس ہورہا تھا۔دل میں اسکے یہ خواہش انگڑائی لے رہی تھی کہ ابھی اسکی منجھلی بیٹی جسے وہ بہت پیار کرتا تھا ، اس کے بستر کے پاس آئے گی اور نیند سے بیدار کرکے اس عجیب صورتحال سے قوال کو باہر نکال دے گی۔ابھی وہ اسی سوچ میں تھا کہ اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ذرا نظر دوڑائی تو ایک کونے میں کوئی کرسی پر بیٹھا ہوا دیوار کی جانب سکرین نما شے پر کچھ دیکھ رہا تھا۔امجد اس طرف چل پڑا کہ شاید وہاں بیٹھا شخص بتا سکے کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ ہال کے کونے میں پہنچ کر وہ کیا دیکھتا ہے کہ سفید شیر وانی اور جناح کیپ پہنے ایک جازب نظر شخصیت دیوار پر چلتے منظر پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔امجد نے بھی ادھر دیکھا تو وہ گولیوں سے چھلنی اس کی گا ڑی کی فوٹیج تھی۔ابھی اس کا دھیان اپنی گاڑی کی طرف تھا کہ اسے ایک شفیق آواز سنائی دی ’ بیٹا بیٹھ جاؤ ‘آواز بہت قریب سے آنے کے باوجود لگتا تھا کسی کنوئیں سے آرہی ہے۔

امجد کا یہ گمان اب زور پکڑ نے لگا تھا کہ یہ جگہ اس جہان رنگ و بو سے بہت دور ہے جہاں وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزارتا رہاتھا۔اس اثناء میں سامنے بیٹھے بزرگ کو اس نے غور سے دیکھا تو وہ حکیم سعید تھے۔ انھیں دیکھتے ہی اس کے دماغ میں ایک بجلی سی کوندی کہ یہ تو بیس برس ہوئے مر چکے ۔یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟۔لیکن اس سے پہلے وہ کوئی لفظ منہ سے نکالتا ،اسکے کانوں میں آواز پڑی ’ بیٹا پریشان نہ ہو ! یہ عالم برزخ ہے اور مجھے تمہیں ریسیو کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے‘۔

امجد کو یہاں اپنا آپ بہت ہلکا لگ رہا تھا اوریہ سب کچھ ایک خواب کی مانند محسوس ہورہا تھا۔دل میں اسکے یہ خواہش انگڑائی لے رہی تھی کہ ابھی اسکی منجھلی بیٹی جسے وہ بہت پیار کرتا تھا ، اس کے بستر کے پاس آئے گی اور نیند سے بیدار کرکے اس عجیب صورتحال سے قوال کو باہر نکال دے گی۔ابھی وہ اسی سوچ میں تھا کہ اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ذرا نظر دوڑائی تو ایک کونے میں کوئی کرسی پر بیٹھا ہوا دیوار کی جانب سکرین نما شے پر کچھ دیکھ رہا تھا۔امجد اس طرف چل پڑا کہ شاید وہاں بیٹھا شخص بتا سکے کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ ہال کے کونے میں پہنچ کر وہ کیا دیکھتا ہے کہ سفید شیر وانی اور جناح کیپ پہنے ایک جازب نظر شخصیت دیوار پر چلتے منظر پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔امجد نے بھی ادھر دیکھا تو وہ گولیوں سے چھلنی اس کی گا ڑی کی فوٹیج تھی۔ابھی اس کا دھیان اپنی گاڑی کی طرف تھا کہ اسے ایک شفیق آواز سنائی دی ’ بیٹا بیٹھ جاؤ ‘آواز بہت قریب سے آنے کے باوجود لگتا تھا کسی کنوئیں سے آرہی ہے۔

امجد کا یہ گمان اب زور پکڑ نے لگا تھا کہ یہ جگہ اس جہان رنگ و بو سے بہت دور ہے جہاں وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزارتا رہاتھا۔اس اثناء میں سامنے بیٹھے بزرگ کو اس نے غور سے دیکھا تو وہ حکیم سعید تھے۔ انھیں دیکھتے ہی اس کے دماغ میں ایک بجلی سی کوندی کہ یہ تو بیس برس ہوئے مر چکے ۔یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟۔لیکن اس سے پہلے وہ کوئی لفظ منہ سے نکالتا ،اسکے کانوں میں آواز پڑی ’ بیٹا پریشان نہ ہو ! یہ عالم برزخ ہے اور مجھے تمہیں ریسیو کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے‘۔

یہ جملہ امجد صابری پر بم بن کر گرا۔ گولیاں لگنے کے بعد موت کی تکلیف اس کو وہ زک نہ پہنچا سکی تھی جو ظلم ان چند لفظوں نے اس پر کر چھوڑا تھا۔ اب سارے معاملے کے محض ایک بھیانک خواب ہونے کی آخری امید بھی اس سے چھن گئی ۔ سب سے پہلے اسے اپنے کم سن بچو ں کی یا د ستانے لگی جو بچپن میں ہی باپ کے شفیق سائے سے محروم ہوگئے تھے۔انھیں یاد کرکے وہ بلک بلک کر رونے لگا پھر رفتہ رفتہ بیوی ، ماں ، بہن بھائیوں اور دوست یاروں کی جدائی کا خیال اس کا کلیجہ پھاڑنے لگا۔اپنے شہر والوں اور لاکھوں مدا حوں کی محبتیں سے محرومی ، جو اس کی نعتوں اور قوالیوں پر سر دھننے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، نے اس کے غم کو مزید سوا کر دیا۔

ہزاروں سوال اس کے ذہن میں کلبلا رہے تھے کہ اسے کیوں مارا گیا ہے ؟ اسکی تو کسی سے کوئی دشمنی نہ تھی ،وہ کسی سیاسی، مذہبی ، لسانی اور عسکری جماعت کا ممبر تو نہ تھا۔اس نے کسی متنازعہ کام میں کبھی ہاتھ نہیں ڈالا تھا وہ تو ایک بے ضرر سا فنکار تھا جو اپنے باپ کے فن کو زندہ رکھے ہواتھا؟ اس کامجرم کون ہے؟ اسے کون سزا دے گا ؟جب آخری جملہ اس کی اپنی سماعت سے ٹکرایا تو اسکو احساس ہوا کہ وہ یہ سب اونچا بول گیا ہے۔لیکن غم کی شدت اتنی زیا دہ تھی کہ اب وہ ہر قسم کے تکلفات سے آزاد تھا ویسے بھی اب کیا فرق پڑنا تھا۔

امجد صابری کے یہ دل دہلا دینے سوال حکیم سعید کی روح کو بھی جھنجھوڑ گئے ۔اب انھیں احسا س ہوا کہ کیوں انھیں امجد صابری کو لینے بھیجا گیا ہے۔امجد تو پھر اپنے غم کے سمندر میں ڈوب گیا لیکن حکیم صاحب کو بھی اپنا ماضی یاد آگیا۔دہلی کے ممتاز مذہبی اور طبی گھرانے کا یہ چشم و چراغ جب سب کچھ چھوڑ کر مسلمانوں کے نئے ملک کے لئے کچھ کرنے پہنچا تو اسکی جیب خالی تھی لیکن دل اور دماغ میں کچھ کرنے کی لگن کا کوئی حساب نہ تھا۔یہاں جیسے تیسے ہمدرد ادارے کی بنیا درکھی تو اسے محنت خلوص اورمستقل مزاجی سے ملکی اور بین الاقوامی سطح کا برینڈ بنا چھوڑا۔طب یونانی جو ایک (dead science) کا درجہ اختیار کرتی جا رہی تھی اسکو اپنے ادارے سے نہ صرف نئی زندگی دلوائی بلکہ صحت کے عالمی اداروں سے علاج کی اس صنف کو باقاعدہ تسلیم بھی کروا کر تاریخ میں اپنے نام لکھوایا۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود بچوں اور بڑوں کے لئے اخلاقی، مذہبی، طبی اور معاشرتی مضامین کا ایک پورا دفتر لکھنے کا وقت بھی جیسے تیسے نکالا۔ قوم کی تربیت کے لئے ہمدرد شوری اور نونہال اسمبلی جیسے پلیٹ فارموں کی داغ بیل ڈالی ۔دنیا میں جدھر بھی گیا اپنے ملک اور قوم کے لئے عزت ہی سمیٹی۔لیکن ملک اور قوم کے دشمنوں نے انھیں نہ بخشا اور اپنے پرائم کے زمانے میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔اس وقت انھیں کوئی دکھ نہ تھا کیونکہ ان کے خیال میں یہ مجرم قوم کے دشمن ہیں ،وہ لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی بے لوث ہو کر ملک اور قوم کے لئے کام کرے،پر اب ان کی رائے تبدیل ہوچکی تھی اور امجد کویہ بتانا ضروری تھا۔

امجد اب خاموش تھا ۔ اپنے سارے انسو بہا کر وہ شاید اب اس سوال کے انتظار میں تھا جو کچھ دیر پہلے اس نے حکیم صاحب سے کیا تھا ’بیٹا تمہارے مجرم پاکستانی قوم اور اس کے عدل و انصاف سے متعلق ادارے ہیں‘۔امجد کے لئے یہ جواب غیر متوقع تھا۔اس نے سکرین نما دیوار پر چلتے اپنے جنازہ کے مناظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’حضرت یہ دیکھیں لاکھوں لوگوں نے لیاقت آباد کا ہر کونا میرے جنازے میں شرکت کے لئے بھر دیا ہے یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے ۔ یہ میرے مجرم کیسے ہیں؟ ‘

دیکھو زندہ قومیں اپنے محسنوں کی حفاظت کرتی ہیں ، ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔اگر ان کو کوئی گزند پہنچے تو ظالموں سے حساب لیتی ہیں ۔میں نے اپنا تن من دھن اس قوم کے لئے نچھاور کردیا لیکن بیس سال کورٹ کے چکر کاٹنے کے باوجود میری بیٹی کو جب پولیس ، رینجرز، سینکڑوں ایجنسیاں اورعدالتیں انصاف نہ دلا سکے تو میں اب اپنے قتل کا زمہ دار کچھ رنگین ہاتھ والوں کو نہیں بلکہ قوم اور اداروں کی لا پروائی اور بے حسی کو سمجھتا ہوں۔جس ملک میں آج تک لیاقت علی خان سے لے کر چوہدری اسلم تک ہر ہائی پروفائل کیس کے قاتل نہ پکڑے جاسکے ہو، وہاں یونہی ایک کے بعد ایک دن دہاڑے قتل ہوتے رہیں گے اور قوم صرف جنازوں میں شرکت اور شہیدوں کے دن ہی مناتی ہی رہ جائے گی۔تمہیں مارنے والے ملک کے دشمن نہیں بلکہ یہ قوم خود اپنی دشمن ہے جو ایسے سفاک قتل فائلوں اور کمیشنوں کی نظر کر کے سکون کی نیند سوتی ہے جس سے بیداری اگلے کسی اندوہناک واقعہ پر ہی ہو پاتی ہے۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو صرف قوال اور طبیب ہی نہیں ، قوم زندگی کے ہر شعبہ میں قابل افراد سے محروم ہوتی جائے گی۔یہ بے حسی اورلا پروائی کے جرم کی سزا ہے جو شاید اب پاکستانیوں کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے‘۔ حکیم صاحب نے تو یہ سب کہہ کر گفتگو سمیٹ دی لیکن امجد صابری کو اپنے کم سن بچوں کے کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے کی فکر کھانے لگی۔

(عالم برزخ ایک ایسا جہان اور مقام ہے جس کی منظر کشی کے لئے الفاظ اور استعارہ ناپید ہیں ۔یہ تحریر فکشن کی طرز پر لکھی گئی روداد ہے جس کا مقصد ملک کی دو نامور شخصیتوں پر ہوئے ظلم ککا اییک نئے رخ سے جائزہ لینا ہے ۔اس تحریر کا واقعاتی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے