کیا ہم امجد صابری کو بھول جائیں؟

شہیدصابری پرکیسےصبرکریں سمجھ نہیں آتا، دل کو یہ کہہ کر ہی تسلی دے لیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تو بہتر ہے ۔ ایسے وقت میں جب ہمارے ملک پاکستان کےچاروں صوبوں میں دشمن کے محفوظ ٹھکانے موجود ہوں، خواتین کو زندہ جلانے کے واقعات معمول ہوں، اختلافات کی بنیاد پر خون بہانا جائز ہو، اپوزیشن کا مقصد منتخب وزیر اعظم کا استعفیٰ ہو، جمہوری حکومت کی ترجیحات اپنے بقاء تک محدود ہوں، ہر ایک کو اپنی پڑی ہو،کراچی آپریشن کی سمت چند مخصوص جماعتوں تک محدود ہو ، کالعدم تنظیمیں نام بدل کر بدستور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، ٹارگٹ کلنگ عام ہو اور قاتل انجام کو نہ پہنچیں تو ایسے میں یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ کوئی شدت پسند امجد صابری کو سرعام گولیاں مار کر شہید کر دے۔

یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ امجد صابری کی شہادت ایک طبقہ کے لئے ہے، دوسرا طبقہ انہیں جاں بحق سمجھتا ہے جبکہ تیسرے طبقہ کے لئے وہ ہلاک ہیں،تو ایسے میں یہ واقعہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ملک جیسی مثال کہیں نہیں ملتی مسیحوں کے شہید الگ، سکھوں کے الگ، فقہ جعفریہ کے الگ،فقہ حنفیہ کے الگ،،،، تو ایسے میں ایک عالمی شہرت یافتہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے قوال کو سڑک پر گولیوں کا نشانہ بنا دیا جائے تو پھر کیا ہوا؟،

یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ جب ایک ہی شخص کی گولی سے لاہور میں شمس الرحمان معاویہ (اہلسنت والجماعت کے رہنماء) اور معروف ذاکر ناصر جعفری(نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنماء) مارےجائیں تو میں پھر کہوں گا کہ آج کا سانحہ بڑا ضرور ہےمگر کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے جب لاہور میں ایف سی کالج کے قریب معروف ذاکر ناصر جعفری کو نشانہ بنایا گیا تو سب سے زیادہ فون مجھے اہل سنت جماعت جو کہ کل تک سپاہ صحابہ کے نام سے جانی جاتی تھی ان کے آئے کہ وہ علامہ ناصر کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں ، خیر میں نے بطور اپنی صحافتی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے ان کا مذمتی بیان نشر کیا اور اگلے دن شمس الرحمان معاویہ صاحب کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا اور جب دونوں کے قاتل پکڑے گئے تو انکشاف ہوا کہ مارنے والے نے ایک ہی پستول سے دونوں کو ٹارگٹ کیا تھا۔ دشمن کا کام ہے ہمیں لڑانا ، نقصان پہچانا اور اذیت دینا ہے۔

شام میں لڑنے والے ‘‘کردوں‘‘ کی مثال ہی لے لیں وہ حالت جنگ میں ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کردشیعہ ہو یا سنی، مسلمان ہو یا مسیح،،،،، کرد ایک ہیں کوئی مسالک کی بنیاد پر تقسیم نہیں،،،،،اور ایک ساتھ حالت جنگ میں ہیں، جبکہ ہم نے شاید دشمن کا ابھی تعین ہی نہیں کیا کہ کون اس قوم کا دشمن ہے۔ جب جرائم کی شرح رمضان المبار ک کے مہینہ میں ریکارڈ سطح پر ہو اور معیشیت کی بدترین حالت ہو تو ایسے واقعات رکتے نہیں مزید بڑھتے ہیں لوگ آسانی سے دشمن کا آلہ کار بنتے ہیں۔ ہمیں دشمن کا تعین کرنا ہے ہمارا مقابلہ آخر ہے کس سے ؟ قادری صاحب کا میاں صاحب سے، اور مثالیں اس آرٹیکل میں نہ ہی دوں تو بہتر ہے

ایک مثال سے ہی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جس دن ہم یہ سمجھ گئے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور شہید سے مراد ناحق مارا جانے والا شخص ہے،،،،نہ کہ پہلے اس کا مسلک دریافت کیا جائے اور پھر اس کی موت کی نوعیت کا تعین کیا جائے تو ہمارا آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ دشمن سہولت کاروں کے بغیر کچھ نہیں کرتا اور سب سے بڑا سہولت کار وہ سوچ ہے جو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ جس سے اختلاف ہے اس کا خون بہا دو۔

ایک اہم بات اور جو میں کہنا چاہوں گا کہ امجد صابری کا واقعہ عام ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نہیں ہے جس انداز میں انہیں نشانہ بنایا گیا اور اتنے اہم شخص کو ٹارگٹ ایسے ہی نہیں کیا جاتا اس کے پیچھے بہت بڑی وجہ ہوتی ہے۔ ماضی میں کراچی میں حکیم سعید کی مثال ہی دیکھ لیں لہذا یہ پہلو بھی بہت ضروری ہے کہ اس شہادت سے فائدہ کون اٹھانا چاہتا ہے اور نقصان کس کا ہے۔ یہ جواب حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو عوام کو دیناہوگا۔

ان حالات میں اگر ہر ادارہ اپنا کردار ادا کرے تو بہتر ہو گا۔ اپنا قبلہ درست کرنے سے زیادہ دوسرے کی فکر ہے ۔ دوسروں کو چھوڑیں آج خود پر ہی بات کر لیتے ہیں عوامی رائے عامہ ہموار کرنے والے میڈیا کا موضوع رمضان المبارک میں قندیل بلوچ اور مولانا قوی کی ملاقات کی کہانیاں ہیں ۔ کوئی ایک آدھا چینل ہو گا جو اس ماہ مقدس میں اتحاد امت یا موجودہ مسائل کے حل کی دین کی روشنی میں بات کر رہا ہو یا کسی نے ٹارگٹ کلنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہو۔

یاد رکھیں ماس میڈیا کاکردار جنگ زدہ علاقوں میں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ لہذا جب تک ہر ادارہ اپنی سمت کو تعین کرکے دشمن کے مقابلہ کرنے کے لئے صف آراء نہیں ہو گا اور انصاف ہر سطح پر نہیں ہو گا تو ایسے میں امجد صابری کے بچے اس بار عید نہ منائیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور آج لاکھوں کی تعداد میں صابری شہید کے جنازے میں آنے والے کل کو یہ واقعہ بھی بھول جائیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے