ریفرنڈم کے بعد برطانیہ میں نئی بحث شروع

برطانیہ نے یورپین یونین سے نکلنے کا تاریخی اور دنیا کو ہلا کر رکھ دینے کا فیصلہ تو کر لیا مگر فیصلہ کرنے والے ابھی تک آگے بڑھنے میں شدید ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ، ریفرنڈم کے فیصلے کو کیسے واپس کیا جا سکتا ہے اس پر بحث شروع ہوگئی ہے۔

یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ تو کر لیا مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی یہ فیصلہ ہو چکا ہے، برطانوی عوام کے فیصلے کے کئی پہلو ایسے ہیں جن پر ابھی بھی بحث جاری ہے۔

کیا ریفرنڈم میں دئے گئے فیصلے کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ؟برطانیہ میں ریفرنڈم کے اس نکتے پربحث کیا جا رہا ہے کہ ریفرنڈم تو محض ایک تجویز ہے ،کوئی قانونی فیصلہ نہیں، اس لئے فیصلے کرنے کے باوجود ابھی تک قانونی کاروائی کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔

کیا ایک دوسرا ریفرنڈم بھی ہو سکتا ہے؟ تجزیہ کا ر سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے پر ایک اور ریفرنڈم کرانے کی راہ میں کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں، بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگربرطانیہ میں آئندہ تین سے چار ماہ میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو ان کے نتائج کو سامنے رکھ کر ایک نئے ریفرنڈم کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

اسکاٹ لینڈ کے باسٹھ فیصد اور شمالی آئر لینڈ کے 56 فیصد عوام نے یورپین یونین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ دیا ہے جو برطانیہ کے یورپین یونین سےعلیحدہ ہونے کے فیصلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے ایک نئے ریفرنڈم کا مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے جو برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

برطانیہ نے ابھی تک یونین سے علیحدگی کے لئے آرٹیکل 50 کے تحت درخواست نہیں دی جبکہ یورپی یونین کے پاس بھی برطانیہ کو یونین سے باہر نکالنے کی کوئی آئینی طاقت موجود نہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ علیحدگی کا فیصلہ کرنے والا ملک ہی حتمی فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے جس کے لئے اسے آرٹیکل 50 کے تحت درخواست دینا ہوتی ہے مگر ابھی تک یہ درخواست جمع ہی نہیں کرائی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے