استنبول کے ایئر پورٹ پر دھماکوں میں 60 افراد ہلاک

ترکی کے شہر استنبول کے بین الاقوامی اتاترک ایئر پورٹ پر دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 60 ہو گئی ہے اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔

ایئر پورٹ پر حملے میں تین حملہ آور ملوث تھے اور ان کا ہدف ٹرمینل کا داخلی راستہ تھا جس میں سے ایک نے کلاشنکوف سے فائرنگ بھی کی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری ہونے والی ویڈیو میں ایک پولیس افسر ایک حملہ آور پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کرتا ہے۔ فرش پر پڑا زخمی حملہ آور اسی دوران خود کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔

استنبول کے گورنر اور وزارتِ انصاف کے مطابق دھماکوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 60 ہو گئی ہے جبکہ120 کے قریب افراد زخمی ہیں۔

مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے چھ کی حالت تشویشناک ہے۔

استنبول کے گورنر واسب ساہن نے صحافیوں کو بتایا:’ تین خودکش حملہ آوروں نے یہ حملہ کیا۔‘

دھماکوں کے فوری بعد امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق وزیر انصاف باقر بوزدق نے کہا:’مجھے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک دہشت گرد بین الاقوامی روانگی کے ٹرمینل میں داخل ہوا اور پہلے کلاشنکوف سے فائرنگ کی اور بعد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘

عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے فوری بعد زخمیوں کو وہاں کھڑی ٹیکسیوں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

روئٹرز کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے مشتبہ حملہ آوروں کو ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر روکنے کے لیے فائرنگ کی۔

ایئر پورٹ پر حملے کے بعد پروازوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور یہاں اترنے والی پروازوں کو متبادل ہوائی اڈوں کی جانب موڑا جا رہا ہے۔

دھماکوں کے وقت ایئر پورٹ پر موجود جنوبی افریقہ کے دو سیاحوں پال اور سوزی رؤس کے مطابق وہ واپس اپنے ملک جانے کے لیے ایئر پورٹ پر پہنچے تھے۔

انھوں نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا:’ ہم پروازوں کی آمد کے ٹرمینل سے سڑھیوں کے ذریعے اوپری منزل پر روانگی کے ٹرمینل پر پہنچے کہ اس دوران فائرنگ شروع ہو گئی، وہاں ایک شخص فائرنگ کر رہا تھا اور اس نے کالے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں دستی بم تھا۔

استنبول کا کمال اتاترک ایئر پورٹ یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے اور گذشتہ برس چھ کروڑ دس لاکھ مسافروں نے اسے استعمال کیا۔

ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں اور حکومت کے درمیان کشیدگی اور ہمسایہ ملک شام میں جاری تنازع کی وجہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

رواں ماہ ہی استنبول کے وسطی علاقے میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ترکی میں گذشتہ برس سے اب تک جتنے دھماکے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری یا تو کرد ملیشیا یا پھر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ قبول کرتی رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے