آئی بی سی اردو، اسلام آباد
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ بجٹ میں مزدوروں کی کم سے کم اجرت بڑھانے کے معاملے میں صوبے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
قانون پر عمل نہ ہو تو مزدور کی تنخواہ 1 لاکھ 30 ہزار بھی کر دیں تو کوئی فائدہ نہیں۔عملدرآمد نہ کرنے پر چیف سیکرٹریز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں، یا صوبائی وزرائے اعلیٰ کو طلب کیا جائے؟؟؟
سپریم کورٹ میں مزدورکی کم سے کم اجرت پرعملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ صوبوں میں مزدور کی کم سے کم اجرت کا قانون موجود ہے، لیکن پر عمل نہیں ہوتا۔ قانون پر عمل نہ ہو تو مزدور کی تنخواہ 1 لاکھ 30 ہزار بھی کر دیں تو کوئی فائدہ نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کم سے کم اجرت کے قانون پر چیف سیکرٹریز عمل نہ کریں تو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں، یا قانون پر عمل نہ ہو تو کیا صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو طلب کریں؟؟؟
بجٹ میں مزدور کی کم سے کم اجرت بڑھانے کے دعوے ہو رہے ہیں، ہر صوبے کی دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش جاری ہے، انہوں نے پوچھا کہ کیا کسی صوبے میں کم سے کم اجرت کے قانون کی خلاف ورزی پر ذمہ دار کو جیل بھیجا گیا، جس پر خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے لاء آفیسرز نے بتایا کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ قانون کی خلاف ورزی پر کوئی جیل گیا ہو۔ مزدور کا کوئی پرسان حال نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ایک دور میں مزدور کی بات کی جاتی تھی اب یہ سسلسلہ ختم ہوگیا۔