کیا آپ ” الن ” کا گھر ڈھونڈ رہے ہیں؟؟؟

ایک تھا کمال احمد رضوی اور دوسرا رفیع خاور۔۔۔۔ کیوں؟؟؟ نہیں سمجھے نا! چلئے آسان کردیتا یوں آپ کے لئے، ایک تھا الن اور دوسرا ننھا۔۔۔دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہوگئے تھے، 29 جون 1965 کے بعد تو ضرور اس سے پہلے کا مگر پتہ نہیں۔۔۔

یہ جون 1965 کے دن تھے کہ جب پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر کے ایک عام سے اسٹوڈیو سے زرا پرے ہٹ کے چار کی ٹولی براجمان تھی۔ آغا ناصر، اسلم اظہر، فضل کمال اور کمال احمد رضوی۔ ایک نئے ڈرامے کے ٹائٹل پر زور وشور سے بحث اور سوچ بچار جاری تھی۔ نشر ہونے سے قبل ڈرامے کا ورکنگ ٹائٹل ” آغا ناصر کا پروگرام ” رکھا گیا تھا جو اس ڈرامے کے ہدایت کار تھے، ڈرامے کو تحریر کمال احمد رضوی نے کیا تھا۔

اسلم اظہر نے عنوان کی بحث سے تنگ آ کر کہا کہ یہ پروگرام بنانے والے کی ذمہ داری ہے وہ عنوان سوچے، فضل کمال نے تائید کرتے ہو ئے کہا، آغا ناصر کا پورا نام لینے کی ضرورت نہیں ۔ صرف نام کے پہلے حروف کافی ہیں۔ آغا کا الف اور ناصر کا نون،،، پہلی قسط کو الف نون کا پروگرام کہہ کر نشر کر سکتے ہیں۔ سب اٹھ کر چل دیئے تو اچانک کمال احمد رضوی کو دور کی سوجھی۔ اس نے دبلا، پتلا، لمبا الف اور گول مٹول نون اپنی آنکھوں کے سامنے پھڑکتے ہو ئے دیکھے تو بے اختیار پکار اٹھا ”الف نون” ۔ بس یہی اس پروگرام کا مستقل عنوان ہے، بعد میں آغا ناصر اور کمال احمد رضوی نے مشورہ کر کے دبلے پتلے لمبے چالاک دوست کا نام "الن” اور گول مٹول موٹے بیوقوف دوست کا نام "ننھا” رکھ دیا گیا، یوں ٹیلی ویژن کے دو مقبول ترین کرداروں ” الن اور ننھا ” نے جنم لیا ۔
اکیاون برس پہلے 29 جون 1965 کے دن، پاکستان ٹیلی ویژن نے پاکستانیوں کو الف نون سے متعارف کروایا تھا۔ کمال احمد رضوی اور رفییع خاور یعنی الن اور ننھا پر مشتمل ڈرامہ الف نون جس نے بھی دیکھا ہوگا کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک چلتا پرزہ ٹائپ شخص کی چالاکیوں کا بھانڈہ اس کا سادہ لوح ساتھی کیسے پھوڑتا ہے، وہ دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ الف نون کی ہر قسط میں معاشرے میں پائی جانےو الی برائیوں کو بہت خوبصورت اور تفریحی انداز میں پیش کیا جاتا تھا چاہے وہ کوئی شادی دفتر ہو، پرائیویٹ اسکول یا پھر ڈاکٹر کا کلینک۔ کمال احمد رضوی کا قلم کسی نشتر کی مانند معاشرے کے جسم پر لگے پھوڑے کو نشانہ بناتا تھا۔

ہنسی مذاق میں سماجی برائیوں کی نشاندہی کرنے والی یہ ٹی وی ڈرامہ ناظرین میں بے حد مقبول ہوا۔ جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ڈرامہ سیریز 1965 سے 1985 تک مختلف وقفوں سے چار مرتبہ پی ٹی وی پر پیش ہوئی اور ہر مرتبہ اس نے ناظرین میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ الف نون نے الن کا کردار ادا کرنے والے احمد کمال رضوی اور ننھا کر کردار ادا کرنے والے رفیع خاور کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

الف نون میں کمال احمد رضوی نے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ایک منفرد انداز میں بے نقاب کیا۔ کمال احمد رضوی کے لکھے اور انہی کی زبانی ادا کئے گئے مکالمے بظاہر مزاحیہ انداز میں ہوتے تھے لیکن ان میں تلخ حقیقت پنہاں ہوتی تھی۔ الف نون ڈرامے کی ایک کہانی ” آرٹ گیلری میں ” کا منظر یاد آتا ہے۔

(کمرے میں اسپانسر خاتون ( ثمینہ احمد ) موجودہے جس سے الن باتیں کر رہا ہے )

ننھا (کمرے میں داخل ہوتے ہو ئے کسی کے بارے میں زور سے): اب تم آنا یہاں، ذلیل آدمی، کمینہ نہ ہو تو۔۔۔۔۔

الن: کیا ہوا بھئی، کیا ہوا

ننھا: الن میں چائے والے کے پاس گیا، میں نے اس سے کہا کہ چائے بھجوا دو، ہمارے گھر عورت آئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس نے انکار کردیا

الن: بھئی تم ایسے ذلیل لوگوں کے منہ کیوں لگتے ہو، تم ایک آرٹسٹ ہو

ننھا: میں بھی اس سے یہی کہا تھا کہ اب ہم "آرٹشٹ” ہوگئے ہیں لیکن اس نے کہا کہ تم بہت جلد اندر بھی ہوجاؤ گے، اس لیے کہ تم فراڈ ہو

الن: بھئی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگوں نے یہی بات ریمبراں سے بھی کہی تھی، پکاسو اور وان گو سے بھی کہی تھی

ننھا (حیرت سے): اچھا، تو ان لوگوں کی بھی چائے والوں سے نہیں بنتی تھی؟؟؟

پاکستان کے مشہور اہل قلم، الف نون اور کمال احمد رضوی کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔

منیر نیازی: "کمال احمد رضوی چاقو سے گدگدی کرتا ہے”

شفیق الرحمان: ” الف اور نون کو پہلی مرتبہ دیکھنے پر مقوی صحت دواؤں کے اشتہار یاد آتے ہیں جن پر استعمال سے پہلے اور استعمال کے بعد کی تصاویر نمایاں ہوتی ہیں۔”

پروین شاکر: "الف نون ہماری گھٹن سے بھرپور زندگیوں میں بارش کے جھونکے کی طرح داخل ہوا اور یہاں سے وہاں تک تمام دریچوں پر دستک دیتا چلا گیا۔”

انتظار حسین: ” مرزا سودا کی ہجویات کی طرح الف نون بھی قوم کے اخلاقی زوال کا ایک مرثیہ ہے۔”

کمال احمد رضوی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نامور شاعر فیض احمد فیض کو ان کا یہ کردار پسند آیا اور انھوں نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک بار کہا تھا۔” کمال تم تو مقبول عوامی شخصیت بن چکے ہو۔”

الف نون، پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، 1980 کی دہائی میں اس کا دوسرا حصہ بھی بنایا گیا۔اس کا پس منظر بتاتے ہو ئے کمال رضوی نے کہا تھا کہ ان کے مالی حالات بہت ابتر ہوچکے تھے اور انھوں نے پی ٹی وی انتظامیہ سے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ الف نون دوبارہ کرنا چاہتے ہیں۔

اپنے ایک انٹرویو میں کمال احمد رضوی نے کہا تھا۔ "الف نون لکھنے کے لیے قدرت نے موقعہ فراہم کیا ورنہ میں خود کشی کرلیتا، یہ قدرت کی جانب سے جذباتی سہارا تھا اس کے اچھے پیسے بھی ملتے تھے یہ ڈرامہ اتنا مقبول ہوا کہ ایک بار کراچی آ کر پیش کیا تو ٹکٹوں کی فروخت سے 72 ہزار رو پے ملے جس سے زمین خریدی اور بعد میں مکان بنوایا۔”

یہ وہی کمال احمد رضوی تھا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کوئی دوست اس کا کرائے کا مکان ڈھونڈتا، اس کے محلے پہنچ کر پتہ پوچھتا تو لوگ کہتے ” کیا آپ الن کا گھر ڈھونڈ رہے ہیں”؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے