پرانا مرہم اورنئی بوتل

اللہ پاک امان اللہ خان کو جنت الفردوس عطاکرے۔ لیلائے کشمیر کے مجنوں سے ان کی وفات سے ایک ماہ قبل چاندنی چوک راولپنڈی آفس میں ملنے گیا۔ان دنوں ان کی طبیعت ناساز تھی اور ان کا جسم کپکپا رہا تھا۔سلام دعا کے بعد میں نے مرحوم کو میگزین بے لاگ صحافت کی کاپی تھمادی توہاتھوں میں تھرتھراہٹ کے باوجود انہوں نے میگزین کے ورق پلٹنا شروع کردیئے۔نظریہ خود مختار کشمیر کے بانی امان اللہ خان سے جتنی بار بھی ملا گفتگوکے دروان وہ اردو کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان میں بھی کوئی جملہ بولتے تھے۔اس ملاقات کے دوران انہوں نے معمول کے مطابق ایک دو جملے کہے جو کشمیر کی موجودہ صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔

ابھی انہوں نے میگزین کے چند ورق ہی پلٹے کہ ان کی نظر ایک صفحے پر چھپی سابق وزیر اعلیٰ کشمیر فاروق عبداللہ کی تصویر پر پڑی۔انہوں نے دونوں ہاتھ میگزین کے صفحات پر رکھے اور مسکراتے ہوئے کشمیری زبان میں کہنے لگے ’’شیخ سند لڑ کہ تۂ چھہ شیتھ فیصد خود مختاأ ،(شیخ عبداللہ کا صاحبزادہ بھی اسی فیصد خودمختار کشمیرکا حامی ہے)۔میں نے ہلکا سا قہقہہ لگا یا اور وقفہ کیے بغیر میں نے مرحوم سے پوچھا پھر تو پیپلزڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی) بھی تحریک آزادی کشمیر کی پکی حامی جماعت ہوگی۔جواب میں امان اللہ نے وہ بات کہی جو اُس وقت میں نے عمومی طور پر لی لیکن آج کل جموں کشمیراسمبلی میں اس کا عملی مظاہرہ دیکھ رہا ہوں۔ امان اللہ کہنے لگے بیٹا ’’مفتی صاحب کی جماعت کشمیریوں کیلئے میٹھا زہر ہے۔‘‘

وزیراعلیٰ کشمیر اور صدر پی ڈی پی محبوبہ مفتی کی ’’بلی اور کبوتروالی تھیوری‘‘ کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی کہ حکمران حماعت کی طرف سے مسلم اکثریتی ریاست کے عوام کو چونکادینے والافتویٰ جاری ہو گیا۔وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابونے رشیوں اوراولیاء کرام کی سرزمین میں شراب کی خریدو فروخت اور اس کے کاروبار پر پابندی کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ ریاست میں انتخاب کی آزادی پر بندش نہیں لگائی جاسکتی نہ ہی معاشرے پر کسی کواپنا فیصلے تھونپنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر درابو نے کشمیر میں مہ نوشی کی کھلی ڈھیل سے متعلق یہ بیان اسمبلی میں دیا ہے ۔دوسری طرف بھارتی ریاست بہار کی حکومت اسی سال اپریل میں شراب نوشی اور اس کی فرخت پر پابندی لگائی ہے۔

شراب کی خریدوفروخت میں چھوٹ دینے کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ’’پیواور پینے دو‘‘ یعنی خود بھی پیواور باقیوں کو بھی پلاؤ۔پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید کا بھی یہی مشغلہ تھا۔اسلئے ان کے پارٹی کے وزیر کو اسمبلی فلور پرام الخبائث(برائیوں کی ماں) کو جائز قرار دینے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔

وادی کشمیر جہاں گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل آگ اور خون کا کھیل جاری ہے، جہاں نوجوانوں کے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں وہاں مہ نوشی پر پابندی ہٹانے یا اس پر قدغن لگانے سے متعلق بیان زیادہ معنی نہیں رکھتا تاہم اگر بالفرض ڈاکٹر درابو صاحب کا فتوی درست سمجھ لیا جائے کہ ریاست میں انتخاب کی آزادی پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی تو کشمیری عوام گزشتہ 70سال بالخصوص پچھلے 20برس سے اجتماعی طور پر آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کیا ان کاجائزمطالبہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اگر ریاستی سرکار حقیقت میں عوام کے ووٹو ں سے وجود میں آئی ہے توعوام کوان کے انتخاب کے مطالبے پر کیوں گولیاں اور ڈھنڈے سے آو بھگت کی جاتی ہے ۔اگر بالفرض یہ بھی مان لیا جائے کہ پیو اورپینے دو کا مطالبہ کشمیری عوام کا ہے تو جو لوگ جیو اور جینے دو کا مطالبہ کر رہے ہیں کیا وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔

پیپلزڈیموکر ٹیک پارٹی کے سابق دور اقتدار میں کس طریقے سے زخموں پر مرہم (Healing Touch)کے نام سے مہم چلا کرعوام پر ظلم و جبر کے جو پہاڑتوڑے گئے اس سے ریاست کاہر باشندبخوبی واقف ہے۔ اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کی گردنیں کس نے کٹوائیں ؟ کس کو معلوم نہیں ۔ اس مکروہ کھیل پر اپنا اقتدارکس نے مضبوط کیا؟ کس کو پتہ نہیں۔ لیکن جیسے تیسے وہ دور گزر گیا اور کھلاڑی بھی اس دنیا میں نہ رہے۔ اب کی بار جو ہورہا ہے یہ صرف ایک انسان کو مارنے کا منصوبہ نہیں بلکہ نسلوں کو تباہ کرنے کا طویل المدتی منصوبہ ہے۔ جب ریاست میں کھلے عام مے نوشی کے دور چلیں گے تب نہ انسان بچے گا نہ عزت و عصمت۔ بس جھولتے جھومتے درندنے ہر سو دندناتے پھریں گے پھر سب آزاد ہوں گے مگر آزادی کا نعرہ نہیں ہوگا۔

موجودہ حکمران جماعت کے پہلے دور اقتدار میں ٹاسک فورس سے جو کمی یا کسر باقی رہ گئی وہ اب کشمیر پولیس کو ایندھن بنا کر پوری کی جاتی ہے ۔ اپنوں کو اپنوں سے لڑانے کے باوجود جب موجودہ حکومت کو اپنے عزائم میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو عوام کو مدہوش رکھنے کا پلان تیار کیاجس کا سنگ بنیاد وزیر خزانہ نے حالیہ بیان دیکر رکھ دیا۔گوکہ گزشتہ دودہائیوں سے کشمیر میں خفیہ طور پر شراب کا کاروبار چل رہا ہے اور نوجوان نسل کواس جال میں لانے کی تگ و دو جاری ہے تاہم جب سے نئی نسل نے ’’ہم کیاچاہتے آزادی‘‘ کا نعرہ دوبارہ شدومد سے بلند کرنا شروع کیاہے تب سے گویاطویل اقتدار کے سپنے دیکھنے والے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔

اس بات میں رتی بھر شک نہیں کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے متاثر ہونے والی کشمیر کی چوتھی نسل گزشتہ تین نسلوں سے زیادہ متحرک اور جذباتی ہے کیونکہ اس نسل نے گولیوں کی تڑ تڑاہت میں آنکھ کھولی، پہلی سانس لی تو بارود کی بو آئی۔قدم اٹھایا تو کسی جوان کے جنازے کی طرف چل اٹھا۔یہ نسل تعلیم یافتہ بھی ہے اور مسئلہ کشمیر اور تحریک کشمیر سے بھرپور آگاہی بھی رکھتی ہے،یہ نسل بے خوف اور بے ڈر بھی ہے۔اور تو اوریہ نسل پچھلی ہتھیاربندنسل سے بھارت کیلئے زیادہ درد سربھی ہے۔ریاستی سرکار بھی اس سر پھری نسل سے سخت پریشان ہے کیونکہ پچھلے نسل کو تہہ وتیغ کرنے کیلئے ان کے پاس یہ جواز تھا کہ اس نے بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھایاہے لیکن ابھرتی ہوئی نسل پرجب جب بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان سے بھی آوازیں اٹھتی ہیں۔میڈیا کے ہوتے ہوئے کسی بے گناہ کشمیری نوجوان کو شہید کرنے پر حکومت کو بڑی خفت اٹھانا پڑتی ہے ۔

ایسے میں دہلی اور ریاستی سرکار نے ملکر مدہوشی والا منصوبہ شروع تیار کیا جس کے ذریعے انسان تو ایک بار نہیں بلکہ بار بارتڑپا تڑپا کر مارا جائے گااور اس کی چیخوں کابھی کسی کو کانوں کان پتہ نہیں چلے گا۔ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق اس گھناؤنے منصوبے سے پی ڈی پی حکومت بھارتی جنتا پارٹی کے عزائم کی تکمیل کے بدلے دو دو ہاتھ مفادات سمیٹے گی اور اقتدار در اقتدار حاصل کرتی رہے گی۔

محبوبہ مفتی اینڈ کمپنی نے عوام کا ووٹ لیکر ہندو انتہا پسند جماعت سے مل کر جو کھیل کھیلا ہے اس کے بھیانک نتائج سے وہ واقف ہے انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جس مشن پر وہ کار بند ہے اس کے بعد وہ شایدہی عوام کے ووٹوں سے دوبارہ کرسی حاصل کر سکے لیکن دہلی کا ہاتھ سر پر رہا تو کرسی اور پی ڈی پی کا رشتہ ہمیشہ کیلئے قائم رہے گا لہذاوہ زعفرانی رنگ میں رنگے ہر وہ حکم بجا لاتی ہے جو مستقبل میں اقتدار کی سند بنے۔رہی بات عوام کی انہیں کو معلوم ہوا ہوگا کہ بھارتی جنتا پارٹی کو وادی وارد ہونے سے روکنے کیلئے انہوں نے جس سانپ کو دودھ پلایا تھا اب وہ خوب ڈس رہا ہے لیکن مجال ہے کوئی آہ بھی کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے