معروف صحافی محمد عامر رانا ،سیکورٹی امور کے تجزیہ کار اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں ۔وہ انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی ،داخلی اور علاقائی سلامتی کے امور پر مہارت رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔وہ انگریزی روزنامہ ڈان کے کالم نگار بھی ہیں ۔اور اردو جریدے ’’تجزیات‘‘ کے مدیر بھی ہیں ۔محمد عامر رانا نے ٹی وی چینل پر مثبت اور تعمیری بحث مباحثے کی ترویج کے لیے ایک منفرد پروگرام تشکیل دیا ہے ۔
آو بات کریں ۔
آئی بی سی اردو سے بات کر تے ہوئے عامر رانا نے کہا کہ آو بات کریں صرف ایک پروگرام نہیں بلکہ ہماری شاندار تہذیب اور روایت کا حصہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مکالمے کی فضا کو ختم کرکے لوگوں کے لیے ماحول میں گھٹن پیدا کر دی گئی ہے ۔ سوال کرنے پر پابندی ہے ،جواب پر پابندی ہے ۔ یہ پابندی جبر کے ماحول کی پرورش کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ انسانی دماغ جبر کے ماحول میں کبھی تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال نہیں ہو سکتا ۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے کہ جہاں بات کی جا سکے اور بات سنی جا سکے ۔ بات کرنے سے ہی ماحول کی گھٹن اور تناو کا خاتمہ ہو گا ۔
اس لیے
آئیں بات شروع کریں ۔
وہ باتیں جو عموماً ہم نہیں کرتے ۔
اس لئے نہیں کہ وہ بہت حساس ہوتی ہیں ۔
متنازعہ یا پھر غیر اہم۔
پس اس لئے کہ ہم بات کرنا ضروری نہیں سمجھتے ۔
شاید ضروری سمجھتے ہوں ،
لیکن شاید جھجک ہو کہ بات شروع کیسے کی جائے ؟
یہ جھجک کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہم بات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کر پاتے۔
ایسی باتیں جو ہماری اپنی ذات ،گھرانے ،محلے اور ملک سے متعلق ہوتی ہیں ۔جھجک الجھنیں پیدا کرتی ہے اور بات نہ کرنے کے بہانے تراش لیتی ہے ۔
پھر وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ جو بات کرنے والے ہیں وہ ان کی نظر میں نا پسندیدہ ٹھہرتے ہیں ۔
خاموشی صرف راہِ فرار ہے۔
اس لئے بات شروع کر رہے ہیں ۔
ان باتوں پر ،جو خاموشی توڑ دے گی۔
جھجک میں چھپا خوف اسی وقت ختم ہو گا جب ہم بات کریں گے۔
ایک نیا اور منفرد ٹی وی شو
آو بات کر یں۔
ڈاکٹر خالد مسعود، ڈاکٹر فرزانہ باری اور محمد عامر رانا کےساتھ
جمعہ کے روز سے
صرف کیپیٹل ٹی وی پر