واپسی۔۔۔

ارے !!! ۔۔ یہ کیسا شورو غلغلہ برپا ہے ؟ یہ ہر طرف مبارک سلامت کا کیساشور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کھلکھلاتے اور چہچہاتے چہرے ایک دوسرے کو زندگی کی نوید کیوں دے رہے ہیں۔یہ اچانک لوگوں کے چہروں پر اتنا اطمینان سکون اور چین کیسے نمودار ہو گیا ہے؟۔ سب کے چہرے کِھلے ہوئے کیوں ہیں۔ اندازو اطوار میں اتنی تروتازگی کیوں ہے۔ یہ ایک دم سے آنکھوں میں زندگی کی چمک کہاں سے پیداہوگئی؟ ہر آنکھ میں خوشی کے آنسوکیوں چھلک رہے ہیں۔ فضا میں جو ایک یتیمی سی طاری تھی یکایک کہاں غائب ہو گئی ہے۔ انسان تو انسان چرند پرند تک اچھل کود کر کے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوکھے ہوئے درخت ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ مرجھائے ہوئے پھولوں میں جان پڑگئی ہے۔

آخر یہ ماجرا کیا ہے؟

آپ کو نہیں معلوم؟ ارے بھئی مملکت خداد اد کے مسیحا، عوام کے ان داتا، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب وطن پاس تشریف لارہے ہیں۔ گو کہ یہ ان کی عادت ہے جلد یا بدیر وطن تشریف لے ہی آتے ہیں، ایئر پورٹ سے واپس بھیجیں پلٹ کر پھر تشریف لے آتے ہیں۔ لیکن ان کی گذشتہ واپسیوں میں اور اس واپسی میں بہت فرق ہے۔ اس مرتبہ وہ ایک جان لیوا بیماری سے لڑ کر پاکستان میں اپنے ادھورے مشن کو پورا کرنے اوراس کمبخت بیماری کی وجہ سے جو جو علاقے پیرس اور سنگاپور بننے سے رہ گئے تھے ان کی تکمیل کرنے آرہے ہیں۔ چند ایک قصبے روشن ہونے سے رہ گئے تھے اب کچھ ہی دن میں وہاں بھی وافر بجلی موجود ہو جائے گی۔

میں اکثر سوچتا ہوں ہم اس کر ۂ ارض پر سب سے خوش نصیب لوگ ہیں۔ ہمیں میاں صاحب کی شکل میں ایک نعمت خداوندی میسر ہے۔ اگر ہم اس نعمت سے محروم ہوتے توآج اس ملک کی جو حالت ہے ہم خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ آج اگر اس ملک کا بچہ بچہ زیور تعلیم سے آراستہ ہے تو فقط میاں صاحب کی اعلیٰ منصوبہ بندی کے سبب۔ آج اگر اس ملک کا قریہ قریہ اور گوشہ گوشہ بجلی سے بقعۂ نور ہے تو فقط میاں صاحب کی بہترین حکمت عملی کے باعث۔ آج اس دھرتی پر جو امن ہے کہ ہر کوئی چین کی بنسی بجا رہا ہے تو صرف میاں صاحب کی عمدہ قیادت کے طفیل۔ شکر ہے پاک پروردگار کاکہ ہمیں میاں صاحب جیسا رہنما میسر آیا جس کی قائدانہ صلاحیت اور حکومتی فہم وفراست کے آگے نوشیروان عادل ، اکبر اورسلطنت عثمانیہ کے فرمانروا ہیچ ہیں۔ یہ میاں صاحب کا ویژن ہی تھا کہ آج ملک میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی بیروزگار نہیں ملتا۔ لوگ ہاتھوں میں زکوۃ لیئے پھرتے ہیں مگرکون لے اور کس کو دیں۔ ان کی بہترین پالیسیوں کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوگی کہ انہوں نے ملک کو ایسا رواں رکھا کہ ان کی عدم موجودگی میں محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ نہیں ہیں۔

بس ایک دو مشکلات آئیں جن کی وجہ سے ملک ترقی کے اس مقام پر ذرا دیر سے پہنچا، عمران خان صاحب اگر وہ دھرنا نہ دیتے تو ترقی کے ان اعلیٰ مدارج پرہم پچھلے سال ہی پہنچ چکے ہوتے۔ او ر پھر ایک دو ذرا ذرا سے باقی ماندہ کاموں میں جو تاخیر ہوئی وہ اس جان لیوا موذی مرض کی وجہ سے۔ لیکن صد شکر کہ میاں صاحب نے اپنی آہنی قوت مدافعت سے نہ صرف اس موذی مرض کو شکست فاش دی بلکہ مہینوں پر محیط صحتیابی سے دنوں میں ہمکنار ہوئے۔ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ میاں صاحب کی بے لوث کمٹمنٹ بیماری پر حاوی ہوئی۔
آئیے بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہوں کہ ہمیں یہ دن دکھایا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے