ملالہ کو معاف کر دیجیے۔۔۔ اور بابا ایدھی

[pullquote]مستنصر حسین تارڑ صاحب کا 2014 میں شائع ہونے والا ایک کالم۔
[/pullquote]

کچھ عرصہ پہلے جب ملالہ یوسفزئی کی شامت آئی ہوئی تھی، اُسے نہ صرف برا بھلا کہا جا رہا تھا بلکہ اُس کے بارے میں ایسے بازاری الفاظ استعمال کیے جا رہے تھے اور اخباروں میں کیے جا رہے تھے کہ کم از کم میں اُنہیں دوہرا نہیں سکتا۔ کیا کسی بھی بیٹی یا لڑکی کے بارے میں اتنی گندی زبان استعمال کرناجائز ہے خاص طور پر جب آپ اپنے تئیں پاکیزگی کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ میں اس سلسلے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کروں گا کہ اس کا چنداں فائدہ نہ تھا، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بشمول میرے ہم سب ایک ’’ٹنل ویژن‘‘ یعنی غار میں سے دکھائی دینے والے محدود منظر کے اسیر ہیں چنانچہ بحث یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہ تھی البتہ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ملالہ کا بنیادی قصور صرف یہ ہے کہ آخر وہ مرکیوں نہیں گئی، زندہ کیوں بچ گئی، بہت سی سکول طالبات کی مانند وہ بھی ہلاک کیوں نہیں ہو گئی یا نذر آتش کیوں نہیں ہو گئی۔

انہی دنوں برادرم عارف نظامی نے ایک کالم ’’ملالہ کو معاف کر دیجیے‘‘ لکھ کر میرے خیالات کی ترجمانی کر دی اور میں اُن کا شکر گزار ہوں کہ اگر میں کوئی ایسا کالم لکھتا تو میری طرف توپوں کے منہ کھل جانے تھے کہ میں ایک معمولی ادیب تھا جب کہ نظامی صاحب کے خلاف لکھنے کے لیے کہ وہ صحافت میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں، بہت مضبوط اور زمین نہ چھوڑنے والے شخص ہیں mustansar hussain tararاس لیے۔ ہم چپ رہے۔ ویسے ملالہ کو اب بھی معاف نہیں کیا گیا۔

اور جہاں تک ایدھی صاحب کی ذات کا سوال ہے تو میں اُنہیں بلاشرکت غیرے قائداعظم کے بعد سب سے عظیم پاکستانی دل و جان سے سمجھتا ہوں اور اُن کا ملالہ سے موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بے شک ایک ہزار ملالائیں ہوں وہ ایدھی صاحب کی عظمت کے صحرا کی ریت کے ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہیں۔ میرے متعدد کالم گواہ ہیں اور وہ کتابی شکل میں محفوظ ہیں کہ میں نے حکومتوں اور اداروں کی باقاعدہ منت سماجت کی تھی کہ خدا کے لیے ایدھی صاحب کے لیے نوبل انعام کے حوالے سے باقاعدہ ایک مہم چلائیے۔ اُنہیں نامزد کر کے نوبل کمیٹی کو اُن کی انسانیت پر جو انہوں نے کرم کیے ہیں اُن سے آگاہ کیجیے لیکن ہوا کیا؟

پیپلزپارٹی نے نوبل امن انعام کے لیے جے سالک ایسے حواس باختہ اور شعبدے باز کو نامزد کر دیا۔ میں پورے یقین سے آپ کو بتاتا ہوں کہ ایدھی صاحب کو کبھی بھی نوبل انعام سے نہیں نوازا جائے گا کہ اس ملک کے سب سیاست دان، وہ زرداری ہوں، نواز شریف ہوں یا عمران خان ہوں اُن کے جانی دشمن ہیں۔ عمران خان کا اُن کے ساتھ شاید کھالیں جمع کرنے پر اختلاف رہا ہے۔ ایم کیو ایم اُن کی ایمبولینس جلا دیتی ہے اور زرداری اور نواز شریف یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ ایک ایماندار اور خلق خدا کے لیے ایک مسیحا malalaشخص کو یہ انعام ملے اور وہ اُن کے رتبے سے زیادہ بلند ہو جائے۔

اگرچہ اب بھی ان لوگوں کے ساتھ ایدھی صاحب کا نام لینا میرے نزدیک گناہ ہے۔ کہ ایدھی کا بلند مرتبہ طے ہو چکا، وہ ان بونوں کی نسبت کہیں سر بلند ہے۔ اگر وہ نوبل امن انعام کے لیے کسی کو نامزد کریں گے تو وہ جے سالک ہو گا یا گلو بٹ! مجھے یاد ہے جب مدرر تھریسا کو جائز طور پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا تو میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایدھی اُن کی نسبت زیادہ بڑے انسان ہیں کہ مدر تھریسا کی خدمت میں بہرطور ایک خواہش کار فرما ہے کہ جس کی خدمت کی جا رہی ہے وہ اُن کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر عیسائی ہو جائے جب کہ ایدھی صاحب صرف اور صرف انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں، اُن کے اندر کسی انسان کے عقیدے کو بدل ڈالنے کا لالچ نہیں ہے۔

میری خواہش ہے کہ کبھی زرداری، نواز شریف یا الطاف بھائی لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں جھولی پھیلا کر کھڑے ہوجائیں، اپنے تئیں کسی نیک مقصد کے لیے خلق خدا سے پیسے مانگیں تو پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ اُن کی جھولیوں میں لوگ اپنے زرق حلال کے سوا بہت کچھ ڈال دیں گے، کیا ڈالیں گے آپ سیانے ہیں، سمجھ جائیں گے۔ البتہ الطاف بھائی کی جھولی بوجوہ بھر سکتی ہے۔ میرے ایک واقف کار ایک روز ایدھی صاحب کو بہت برا بھلا کہہ رہے تھے، شدید غصے میں تھے، کہنے لگے، تارڑ بھائی، بیٹی کی شادی کے سلسلے میں میری بیگم لبرٹی مارکیٹ سے کچھ زیور فرید نے کے لیے گئی۔ اور وہاں فٹ ہاتھ پر وہ کمبخت بابا ایدھی جھولی پھیلائے بیٹھا تھا، بیگم نے زیورات کی ساری رقم اُس کی جھولی میں ڈال دی اور خوش خوش گھر آ گئی۔ اُس سے اگلے روز میں خود لبرٹی مارکیٹ گیا زیورات خریدنے کے لیے اور وہ ناہنجار بابا وہیں بیٹھا، فٹ پاتھ پر جھولی پھیلائے بھیک مانگ رہا تھا۔ میں نے بے اختیار ساری رقم اُس کی جھولی میں ڈال دی۔ تارڑ صاحب۔ یہ بابا ہمیں برباد کر دے گا۔ اس پر پابندی لگنی چاہیے۔

کسی بہت بڑے اخبار کی جانب سے ملک کی چند شخصیتوں کو ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ دینے کا اعلان ہوا اور بدقسمتی سے اُن میں میرا نام بھی شامل تھا۔ چونکہ میں ان انعامی شعبدوں پر یقین نہیں رکھتا چنانچہ میں نے معذرت کر لی اور تب مجھے بتایا گیا کہ یہ ایوارڈ ایدھی صاحب پیش کریں گے تو میں سر کے بل گیا اور سٹیج پر جا کر ایدھی صاحب کہا کہ بابا جی، اگر آپ اس ایوارڈ کی بجائے مٹھی بھر مٹی میرے چہرے پر بکھیر دیتے تو بھی یہ ایک اعزاز ہوتا۔

تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کہاں ایدھی بابا اور کہاں ملالہ یوسف زئی۔ چہ نسبت۔ ایدھی صاحب نوبل انعام کی محدودیت سے بلند ہو کر ایک ایسے مقام پر فائز ہو چکے ہیں جو نوبل کمیٹی کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔ اب اگر ملالہ کو نوبل انعام مل ہی گیا ہے تو ذرا صبر شکر کر یں، مرے ہوئے سانپ کی مانند زہر گھولنے سے فائدہ، اور یہ وارث شاہ نے کہا تھا۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ نہ صرف وزیراعظم پاکستان نے بلکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملالہ کے نوبل انعام پر اُسے مبارکباد دیتے ہوئے اُسے دختر پاکستان کہا ہے۔ سوائے مولانا فضل الرحمن کے وہ تو خود امید وار تھے بلکہ اُن کے پالے ہوئے لوگ بھی وہی بم دھماکوں والے وہ بھی ہمارے اُمیدوار تھے۔

میں جانتا ہوں کہ اگر عارف نظامی نے کہا کہ ملالہ کو معاف کر دیجیے۔ تو ملالہ کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ وہ بوکوحرام کی اغوا شدہ دوسو بچیوں کی بازیابی کی وکالت کرنے والی بچی کو کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ اگر ایک پاکستانی سفارت کار امریکہ میں یہ کہتا ہے کہ ہم پہلی بار دہشت گردی کے حوالے سے نہیں امن کے حوالے سے پہنچانے جا رہے ہیں اور یہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے اور ایک پاکستانی نژاد کینیڈا میں آباد خاتون یہ کہتی ہے کہ میں جہاں جاتی ہوں مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا تم ملالہ کے ملک سے آئی ہو اور وہ میری توقیر کرتے ہیں۔ تو اس میں کچھ حرج ہے۔؟ تو ملالہ کو پلیز معاف کر دیجیے۔

بشکریہ نئی بات

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے