خیبر پختوانخوا: خواتین کے حق میں قانون سازی ناکام ہو گئی؟

خیبر پختوانخوا: خواتین کے حق میں قانون سازی ناکام ہو گئی؟
تمام تر قانون سازی کے باوجود پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین کو قتل کرنے اور ان پر تشدد کے واقعات میں معمولی سا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سال رواں کے چھ ماہ کے دوران اّسی خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کے مطابق گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں 72 خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔ اس بیان کے مطابق 2015ء کے دوران ایک سو پچاسی خواتین کو قتل کیا گیا جبکہ خواتین پر جنسی تشدد کےایک سو ستائیس کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ پولیس نے مزید بتایا کہ خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے تاہم مخصوص روایات کی وجہ سے لوگ خواتین سے متعلق واقعات کے سلسلے میں تھانے سے رجوع نہیں کرتے۔ کمزور قوانین، تحقیقات میں جدید ٹینکالوجی کی عدم دستیابی اور ورثاء کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قاتل اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔

جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سینیٹر ستارہ ایاز سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا،’’ہمارے ہاں بین الااقوامی معیار کے قوانین موجود ہیں لیکن نہ توعوام کو ان کے بارے میں علم ہے اور نہ ہی اس پر ‌صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو پتہ نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ حال ہی میں ہراسمنٹ بل پاس ہوا ہے لیکن اس کے بارے میں جب پولیس اور عدلیہ کے بعض لوگو‌ں کو اس کا پتہ تک نہیں تو عام آدمی اس کے بارے میں جانے گا۔ بعض قوانین میں رد وبدل کی ضرورت ہے لیکن اصل ضرورت ان قوانین کو عملی شکل دینا ہے ان پر عمل درآمد کرنے سے ہی خواتین پر تشدد کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے‘‘۔

پختونخوا اسمبلی کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں ایک بڑی تعداد میں خواتین موجود ہیں لیکن یہ خواتین ابھی تک مؤثر کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ اس بارے میں سینیٹر ستارہ ایاز کہتی ہیں ’’پارلیمنٹ میں خواتین سیاسی جماعتو‌ں کی صوابدید پر آتی ہیں اور سیاسی جماعتیں ان کی اہلیت، تعلیمی قابلیت اور متعلقہ شعبے میں تجربے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں نامزد کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کو یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے یوں ہم وقت اور پیسہ دونوں ضائع کرتے ہیں۔‘‘

پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت نے بعض تھانوں میں خواتین کے لیے الگ ڈیسک قائم کیے ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین کے کیسز میں پولیس سے رابطہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے بقول خواتین پر تشدد کے واقعات موجود اعداد شمار سے کافی زیادہ ہیں لیکن مخصوص روایات کی وجہ سے لوگ تھانے یا عدالت جا کر انصاف حاصل کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لیے درجنوں غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ تاہم ان کا موقف ہے کہ جب تک حکومت فریق نہیں بنتی تب تک ملوث افراد کو سزا ملنے کے امکانات کم ہی ہیں۔

پشاور میں عورت فاؤنڈیشن کے لیے کام کرنے والی صائمہ منیر سے جب ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا ’’قوانین موجود ہیں لیکن ان میں بعض کے بارے میں پولیس کو بھی پتہ نہیں۔

خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اکثر غیر ت کے نام قتل کو خود کُشی ظاہر کی جاتی ہے، جس سے کیس کی نوعیت بدل جاتی ہے اور پولیس تحقیقات کی بجائے ورثا کے کہنے پر اکتفا کر کے کیس کلوز کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہزارہ میں غیرت کے نام قتل کی جانے والی لڑکی کے کیس میں حکومت پارٹی بن گئی تو ملزمان پکڑے گئے اور کیس بھی رجسٹرڈ ہوا۔ لیکن غیرت کے نام پر قتل کے اکثر کیسز میں رشتہ دار معاف کر دیتے ہیں اور ایسے میں حکومتی اداروں کا کردار ختم کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ملوث افراد سزا سے بچ جاتے ہیں۔

صوبائی حکومت کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے خواتین کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد اور اس کے بارے میں آگاہی ہی خواتین کے خلاف تشدد میں کمی کا باعث بنے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے