عنایہ کا پاکستان ۔۔۔۔

[pullquote]عنایہ کا پاکستان بھی عجیب ہی ہے۔ دکھوں ، پریشانیوں اور ، محرومیوں سے بھرا ، جہاں مسائل کی آندھی وقفے وقفے سے بس چلتی ہی رہتی ہے۔ نجانے کیا سوچ کر آئی تھی عنایہ اور اسے کیسا ملا یہ جہاں۔۔ کہیں عبداللہ ہے جو باپ ہوتے ہوئے بھی اس کی شفقت اور چھاؤں سے ناآشنا رہا۔۔ تو کہیں امجد صابری کے بچے ہیں جو پل بھر میں پدرانہ شفقت سے محروم ہوگئے۔کہیں بسمہ ہے جو ’ وی آئی پی پروٹوکول ‘ کی بھول بھلیوں میں ایسی الجھی کہ جان ہی چلی گئی ۔۔ تو کہیں زینت ہے جس کی خواہشات کو کسی او رنے نہیں اس کی سگی ماں نے شعلوں میں بھسم کردیا۔ [/pullquote]

عنایہ کا پاکستان بس ایسا ہی ہے۔۔۔ جہاں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ترسنا پڑتا ہے۔ ڈیڑھ برس قبل جب ماں کی گود میں پہلی بار آئی تھی تو اسے دیکھتے ہی صدف کے دل میں آرزوؤں اور تمناؤں کے جگنو جھلملا اٹھے تھے۔وہ تو تصور میں اسے دلہن کا روپ دھارے ڈولی میں وداع ہوتے دیکھ رہی تھی ۔ ماں نے جو زیور اس کے بیاہ کے لیے بناکر رکھے تھے اب عنایہ کے علاج پر بک چکے تھے ۔ باپ نے سوچا تھا کہ وہ بڑی ہوگی تو توتلی زبان میں چھوٹی بڑی فرمائشیں کرے گی۔ لیکن آج وہی بابا اس کی زندگی کے لیے فریاد ی بن گئے ہیں ۔ وہ گاڑی جس میں عنایہ کو شان سے گھومنا پھرنا اور سیر سپاٹے کرنا تھا اب اس کی سانسوں کی گاڑی کو فر فر چلانے کے لیے فروخت ہوچکی ہے۔ بہت سے ارمان تھے ۔ بہت سی ان دیکھی خواہشات کے چراغ تھے جن کی لو دھیرے دھیرے مدھم ہوتی جارہی ہے۔ عنایہ کی تکلیف ماں باپ دل میں محسوس کرتے ہیں۔عنایہ کو سسٹک فائبروس کی بیماری ہے ۔ جس کا علاج وزیراعظم اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کی ’’معمولی بیماری‘‘ کی طرح بدقسمتی سے ملک سے باہر ہی ہوتا ہے ۔

[pullquote]عنایہ کی سانس کی نالی پیدائشی طو ر پر باریک ہے جبھی سانس لینے میں اسے پوری توانائی استعمال کرنی پڑتی ہے ۔ عنایہ مسکرانا بھول گئی ہے ۔ پھیپھڑوں میں پانی مسلسل بڑھ رہا ہے ۔۔ بھاری بھرکم مشینری جب چھوٹی سی اس پری کا پانی نکالتی ہے تو درد سے بلکتی ، تڑپتی اور روتی عنایہ کو دیکھ کر ماں باپ کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ۔ والد ثروت سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ چار لاکھ روپے ماہانہ کا خرچا اٹھانے کے لیے اب ان کی کمر ، اعصاب اور حوصلہ جواب دیتے جارہے ہیں ۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ذرا سی آہٹ پر ماں باپ کو لگتا ہے جیسے کوئی فرشتہ ان کی مدد کو آگیا ہے ۔ جو ان کی عنایہ کو موت کے منہ سے کھینچ لائے گا ۔ [/pullquote]

اسپتا ل کے بستر پر بت بنی عنایہ بس خالی خالی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھتی رہتی ہے ۔ دوائیوں کے کڑوے کسیلے ذائقے نے زندگی کو اور پھیکا کردیا ہے ۔ وہ تو دنیا میں ماں باپ کی گلستان میں خوشیاں بانٹنے آئی تھی لیکن وہ بے چارے اب اس کی طرح بت جیسے ہی بن کر رہ گئے ہیں۔ عنایہ کا ہر پل قیمتی ہے ۔عنایہ کے پاکستان میں ایک ہلکی سے امید اب بھی باقی ہے ۔ اسے یقین ہے کہ کسی ایک دن تو وہ اس بند کمرے سے باہر کی دنیا میں جائے گی ۔ اپنوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائیں گی ۔۔ پیاری پیاری فراکس پہن کر ، ننھے ننھے ہاتھوں میں مہندی لگا کر ، رنگ برنگی چوڑیاں پہن کر ، پونی ٹیل باندھ کر چھوٹے بڑے قدم بڑھاتے ہوئے ماں یا باپ کی انگلی پکڑ کر ننھی منی سی ضد ضرور کرے گی ۔ مگر یہ دن اسی وقت آسکتا ہے جب عنایہ کے پاکستان کا کوئی مسیحا ، کوئی فرشتہ اس کے باپ کا بوجھ کم کرنے کے لیے اس کی کہانی کو ’ شئیر‘ تو کرے ساتھ ساتھ ’ مالی شئیر ‘ بھی ۔۔۔ پھر عنایہ فخر سے کہے گی ۔۔ ہاں یہ ہے میرا پاکستان ۔۔۔!!
[pullquote]( ننھی کلی مرجھا نہ جائے اسی لیے مخیر حضرات ، مالی مدد کے لیے ، عنایہ کے والد ثروت ندیم سے 03212007690پر رابطہ کرسکتے ہیں۔۔۔) [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے