بے لوث خدمت کا ایک عہد – عبدالستار ایدھی

جب سے انسان نے اس دھرتی پر قدم رکھا ہے اُس وقت سے لے کر اب تک انسان کو اپنے کسی ہم نفس کی ضرورت رہی ہے جو اُس کے دکھ سکھ یا کم سے کم دکھ کے وقت اُ س کی دلجوئی کر سکے۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ تمام مذاہب کے اندر انسانوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی۔ اسلام جیسے آفاقی دین میں بھی حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا۔ مگر انسان بہت ہی خود غرض ہے اور اسی کمزوری کی وجہ سے انسان ہمیشہ ہی اپنے مطلب کو فوقیت دیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مذہبی حلقوں میں ذاتی عبادات پر اتنا فوکس کیا گیا کہ حقوق العباد اس کے سامنے بہت چھوٹے نظر آنے لگے۔ یہ بات تو مناسب نہیں مگر کچھ اسطرح کے رویے پنپنے لگے جیسے کسی اعلیٰ عہدے دار یا کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہستی سے اگر تعلق قائم ہو جائے تو پھر کسی چھوٹے عہدے پر موجود کسی نچلے درجے کے کمی کمین سے کوئی سلام دعا کا بھی روا دار نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مذہبی طور پر راسخ العقیدہ حضرات کا رجحان سماجی و معاشرتی خدمت کے مقابلے میں ذاتی عبادات کے حوالے سے بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ اور یہ کہنا کہ اللہ پاک اپنے حقوق یعنی حقوق اللہ تو معاف کر دے گا مگر حقوق العباد کے بارے میں کوئی رائت نہیں دی گا، یہ ایک سلوگن کے طور پرہی لوگ استعمال کرتے ہیں ورنہ عملی طور پر اس کے برعکس ہوتا نظر آتا ہے۔

ہمارے ہاں غربت اور ہمارے ہاں کے مذہبی لوگوں کے رہہن سہن اورہماری عبادت گاہوں کا جاہ و جلال کا موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ اپنی مذہبی عبادات و عبادت گاہوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کےلئے تیار ہو جاتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں کسی مسکین یتیم کے گھر کو روشن کرنے میں کوئی تسکین محسوس نہیں کرتے۔ اس حوالے سے ہمارے اپنے معاشرے میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔

اس خود غرض معاشرے میں ایک بے لوث خدمت کرنے والا بھی آیا جس نے اپنی ذاتی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر اجتماعی دکھوں کا مداوہ کرنے کاسوچا اور ثابت کر گیا کہ اگر ایک شخص چاہے تو انفرادی حثیت میں بھی معاشرے کے اندر کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔ وہ ایک شخص ہی نہیں بلکہ ایک عہد تھا عبدالستار ایدھی۔ جس نے ساری زندگی چند کپڑوں میں جی کر ثابت کیا کہ خواہش کسی بے لگام گھوڑے کا نام نہیں ہے۔ انسان کی زندگی میں اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ایدھی کا کام ایک انفرادی کوشش ہے اور وہ اس میں کامیاب و کامران رہا۔ مگر یہ کام فرد کا نہیں ہے یہ کام ریاست کا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ابھی ریاست کا وہ تصور سامنے ہی نہیں آیا۔ یہاں تو ریاست اور ریاستی ادارے ذمہ داریاں بھی احسان سمجھ کر ادا کرتےہیں۔ اور جب ذمہ داری احسان سمجھ کر ادا کی جائے تو وہ ذمہ داری پوری طرح سے ادا ہی نہیں ہو سکتی ۔ جب آپ اُن پر تنقید کریں تو وہ اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے کچھ یوں جواب دیتے ہیں "شکر کریں ہم نے یہ کر دیا ورنہ ہم سے پہلے تو برا حال تھا” "ہماری حکومت کا آپ کو احسان مند ہونا چاہیےکہ ہم نے یہ کام کروا دیے” "ہماری کرپشن کی بات کرتے ہیں شرم آنی چاہیے جو خود کرپٹ ہوکر ہماری طرف اُنگلی آٹھا رہےہیں”۔ یہ صرف چند مثالیں تھیں جو ہم کو سننے کو ملتی ہیں جیسے وہ حکومت کر کے ہم پر احسان ِ عظیم فرما رہے ہوں۔ مگر جن لوگوں کے پاس کوئی سوچ ہی نہ ہو اُن کو کوئی بھی چیز سمجھانا نا ممکن ہے۔ جب تک ریاست کی عوام اپنی سوچ نہیں بدلتی نظام نہیں بدلے گا۔

میرے ایک دوست جناب ریحان اللہ والا جو کہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں اُن نے ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ایک پوسٹ کیا جس نے مجھے یہ سب کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ اُن کا سوال تھا کہ ایدھی نے اتنے فلاحی کام کیے وہ ایک عظیم انسان تھے تو آخر اُن کے جنازے میں اتنے کم لوگوں نے کیوں شرکت کی۔ بقول اُن کے نیشنل اسٹیڈیم میں اتنی جگہ خالی نظر آرہی تھی کہ ایسے لگتا تھا لوگ آئے ہی نہیں۔ اس پوسٹ پر لوگوں نے اپنا ردِ عمل بھی دیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ سیکیورٹی عملے کی وجہ سے کسی نے لوگوں کی بے اعتنائی کا رونہ روہا۔ کسی نے سوشل میڈیا کے رجحانات کی بات کی۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر پھر بھی سوال بہت اہم ہے کہ آخر لوگ اتنے کم کیوں گے۔ تویہاں میرا ایک سوال ہے کہ کیا ایدھی کسی غرض سے اتنے سال خدمت کرتا رہا۔ کیا وہ اپنے پوسٹرز دیواروں پر لگوانے ، اپنے جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت یا نیشنل لیول کے جنازے کے لیے یہ سب نیک کام کرتا رہا۔ یقینا ایسا نہیں ہے ایک نیکی ہوتی ہے ایک احسان۔ نیکی یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت سے زائد کسی ضرورت مند کو دے دیتا ہے۔ جیسے راہ چلتے ہوئے ہم کسی کو کچھ پیسے تھما دیتے ہیں۔ کسی کو راستہ پار کروا دیتے ہیں۔ کسی کو اپنے گھر کے کھانے میں سے کچھ ڈال کر دیتے ہیں۔ مگر احسان نیکی سے اگلے درجے کا نام ہے۔ اس کی مثال ہم کو انبیاء کرام کی زندگیوں ، خلفاء راشدین، صحابہ کرام اور اللہ کے نیک بندوں سے ملتی ہیں۔ تو احسان کیا ہے کہ اپنی ضرورت اپنے حق کو دوسروں کی ضرورت کے سامنے قربان کردینا۔ پورے دن کا روزہ رکھنا اور شام کو افطار کے وقت سارا کھانا کسی ضرورت مند کو دے دینا۔ دنیا بھر کی دولت ہونے کے باوجود پرُ تعیش زندگی نہ گذارنا اور اللہ کی مخلوق کے لیے کھانے کا سامان خود اپنے کاندھے پر لاد کر لے جانا۔ ایدھی بھی یقنیا اپنے آباو اجداد کے نقشے قدم پر چل رہا تھا بقول ایدھی صاحب کہ "تم اپنا کام خدمت جاری رکھوتمارا کام ایک دن پکار پکار کر بولے گا کہ تم کس دین کے پیروکار ہو۔ لوگ تمارے بارے میں خود تلاش کر لیں گے تم کو بتانے کی ، منادی کروانے کی ضرورت ہیں پڑے گی۔ ”

جو معاشرہ تعلیم سے دور ہو اور ایمان کی دولت سے محروم ہو وہاں پر مثبت رویے پروان نہیں چڑھتے ۔ اُن کی کوئی واضح سمت نہیں ہوتی۔ اُن کی مثال طفیلے جیسی ہوتی ہے جس کی صرف ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت جہاں سے بھی پوری ہو جائے ۔ میرے عزیز دوست نے بڑے کرب سے لکھا کہ عین اُسی وقت کسی ریسٹورینٹ پر تو بہت رش تھا مگر ایدھی کے پاس چار لوگ تھے ۔ وہ شاید بھول گئے کہ مسجدوں میں نماز کے وقت موجود لوگوں اور کسی سیاسی شعبدہ باز کے جلسے میں موجود ہجوم کا ہی موازنہ کر کے دیکھ لیتے۔

جو لوگ اپنے اللہ کی نہیں سنتے وہ کسی خدمت گزار بندے کو کیا سمجھیں گے۔ جو لوگ اس ملک میں آج بھی ووٹ برادری، صوبہ ، زبان اور مفاد دیکھ کر دیتے ہوں وہ لوگ صرف مفاد کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے جب سب لوگوں نے اس بات کا تقاضہ کیا کہ ایدھی جیسے شخص کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ریاستی سطح پر انتظامات کیے جائیں تو ہمارے ہاں ابھی تک صرف ایک ہی ادارہ ریاست کا نمائیندہ ہے اور وہ ہے آرمی ۔ باقی ادارے ہر وقت کے ساتھ ساتھ ہر آنے والی حکومتوں کے تلوے چاٹ چاٹ کر اب شاید بھول گئے ہیں کہ وہ مملکتِ خداداد ِپاکستان کے طابع ہیں۔ اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ آپریشن ضرب ِ عزب کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کی دُم پر فوج کا ہی پائوں ہے۔ اسی لیے چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہو یا مذہبی سب کے سب نے ایک خاموش بائیکاٹ کیا اور اُن کےساتھ مفاداتی ٹولے نے بھی عظیم ایدھی کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے بہتر اپنے مفادات کو کو سمجھا ۔ میری ذاتی رائے میں کسی احسان کرنے والے کو دنیا میں کبھی بھی بدلہ نہیں ملتا کیوں کہ احسان کا بدلہ صرف اللہ کی ذات ہی دے سکتی ہے۔ اسلام میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔جنازوں میں لوگوں کی تعداد کسی کے عظیم ہونے کی شرط نہیں ہوتے۔ ایدھی صاحب بے لوث خدمت کے داعی تھے اور اُن کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے