قندیل بلوچ کا خون، ذمہ دار کون۔۔۔۔؟؟

قندیل بلوچ کے حوالے سے اسلامک سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے بہترین اور معتدل مؤقف سامنے آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنے حبیب نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق انسان سے نہیں اس کے گناہ سے نفرت کرتا ہے، بحثیتِ انسان اور مسلمان ہم سب کو قندیل کی مغفرت کی دعاء کرنی چاہیئے ۔

جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایسے مواقع کی آڑ میں اسلام پسندوں کو رگیدنے والے ہمارے لبرلز کو کافی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ یہاں تو سبھی نے مذمت اور دعائے مغفرت کی ہے، بالآخر کچھ نہ بن پایا تو ایک داڑھی ٹوپی والے شخص کو قندیل کا بھائی قرار دے کر تشہیر کی گئی اور اس کی آڑ میں مولوی اور اسلام کو پھر سے تختۂ مشق بنانے کی ناکام کوشش کی گئی، مگر یہ کوشش چند گھنٹوں میں ہی بے سود ہوگئی جب قندیل کا اصل بھائی اور قاتل گرفتار ہوکر منظرِ عام پر آیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ کام ہیں، جس کی وجہ سے دلیل اور مکالمے کی بجائے اختلاف برائے مخالفت اور بے بنیاد الزام تراشیوں کی راہیں کھلتی ہیں۔

رہی بات قندیل کے قتل کے محرکات کی تو اولین والدین کی جانب سے تربیت میں کمی، احساسِ کمتری، نیاپن دکھانے کا زہریلا شوق اسے رنگینیوں کی دنیا میں گھسیٹ لایا،
جہاں سے اسے سب سے بڑے زہرِقاتل میڈیا نے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنایا، ریٹنگ کا سامان بننے والے یہ لڑکی اب شہرت اور دولت کی ہوس میں پوائنٹ آف نو ریٹرن سے آگے بڑھ چکی تھی، قندیل کے انٹرویوز وغیرہ دیکھنے والے احباب بخوبی جانتے ہونگے کہ ایک نفسیاتی مریضہ اور بدترین احساس کم تری کا شکار شخصیت تھی، جو بچکانہ حرکات اور لایعنی باتیں ہی کرتی تھی۔

الغرض اس کی منزل شہرت تھی جو اسے "بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا” والے کلیے کے تحت چند ہفتوں میں شہرت کے بامِ عروج تک لے گئی، جس میں اہم کردار موضوع نہ ملنے پر دوکان کا رش کم ہونے سے ڈرنے والے اینکرز اور میڈیا مالکان تھے، جنہوں نے ایک گلیمرائزیشن کی جانب میلان رکھنے والی لڑکی کو گلیمر کے دلدل میں دھنسادیا، اور اس نے بھی اس دلدل کی ناگن بننے کو ہی سب کچھ سمجھا ۔۔۔۔۔

بات پہ بات آتی ہے کہ اصلاحی کوشش کیوں نہ کی گئی تو بندہ زیادہ ہرزہ سرائی سے بچنے کیلئے فقط اتنا عرض کرنا چاہتا ہے کہ بعض کے نصیب میں طارق جمیل اور بعض کے مقدر میں عبدالقوی آتا ہے، اب اپنے اپنے انداز کی "کوشش” دونوں نے کی، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
آخری بات فوزیہ کے بھائی وسیم پر آکر اختتام پذیر ہوتی ہے، آج غیرت کے نام پر بہن کا گلہ گھونٹنے والا وسیم دنیا بھر میں ملعون و مطعون ٹھہرتا ہے، یقیناﹰ قتل وہ بھی ایک عورت کا نہایت سفاکانہ، ظالمانہ اور درندگی والا عمل ہے۔
مجھ سمیت آپ بھی وسیم پر چار حروف بھیج چکے ہونگے، ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ ایک لمحے کیلئے رکیے ۔۔۔۔۔! آنکھیں موند لیجئے ۔۔۔۔ چشمِ تصور میں قندیل کو اپنی حقیقی بہن تصور کیجئے۔۔۔۔۔ قندیل کے افعال، حرکات و سکنات کا کو دماغ کی سکرین پر چلائیے ۔۔۔۔
دل بھاری ہورہا ہے ناں۔۔۔۔؟ اعصاب تھرا گئے ہیں ناں۔۔۔۔ سوچئے کہ محلے، گلی، کھیت، بازار، دکان، پڑوس، رشتے دار، شہر، عزیز اقارب سب بہن کے اعمال آپ کے سر پر ڈال رہے ہوں۔۔۔۔۔ کوئی چلتے چلتے چہ مگوئیاں کرتا جائے کہ۔۔۔۔ارے یہ فلاں عورت کا بھائی، ۔۔۔۔۔فلاں کا بھائی ہے۔۔۔۔ کیا خیال ہے یہاں غیرت نہیں شرمندگی، احساس اور ندامت کی آگ دل کلیجہ جلا کر سیخ کر دیتی ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟

ارے ہاں! آپ کی رگیں پھول گئیں۔۔۔۔۔ آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔۔۔ خاندان کی عزت سرِبازار نیلام ہونے کا غم نیند، بھوک، چین سکون اور ہوش و حواس سب لوٹ چکا۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایسی صورت میں آپ کو خود پر کنٹرول نہ رہا۔۔۔۔۔ جوش حاوی ہوا ہوش پر۔۔۔۔۔ آپ نے اس کی زندگی چھین لی۔۔۔۔۔۔ کہ اس نے عزت کا تماشہ کیا اور آپ اس کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔۔۔۔۔۔

سوچئے ۔۔۔۔۔!! کیا آپ کی گئی عزت ہاتھ آئی ۔۔۔؟ کیا آپ نے ذمہ داری پوری کرلی ۔۔۔۔؟ کیا خاندان کے دامن پر لگا داغ اس کے خون سے دھونے سے دھل گیا ۔۔۔۔۔؟؟

نہیں ۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ اے ابنِ آدم!۔۔۔۔ اے اولاد کو جگر کا ٹکڑا سمجھنے والے والدین!

اے "غیرت و حمیت کے پتلے” بہن کے شہزادے بھائی ۔۔۔۔۔!! تو نے اس بہن، بیٹی کی تربیت مکمل کی تھی۔۔۔۔؟ کیا اسے کبھی اپنائیت دے کر مطمئن رکھا تھا۔۔۔۔؟ کیا اس کو دئیے جانے والے "تعلیمی ماحول” سے باخبر تھا۔۔۔۔؟ کیا اس کے ہم نشینوں پر نظر رکھی تھی۔۔۔۔؟
نہیں رکھی ناں۔۔۔۔؟ کیا اس کی زندگی کسی کے حوالے کرتے ہوئے صرف ایک دفعہ اس کی مرضی، رضا مندی اور پسند پوچھی تھی۔۔۔۔؟ یا اپنی خاندانی لاج کیلئے ایک انسان کی زندگی کا فیصلہ اپنے شاہانہ اور مالکانہ اشارے سے کردیا تھا۔۔۔۔۔؟

کیا اپنے لاڈ میں پلے پوسے اس جسمِ ناتواں کو کسی کی جھولی کے حوالے کرنے کے بعد اس کی پوچھ تاچھ کی ۔۔۔۔۔؟ اس کی زندگی کو مطمئن پایا۔۔۔۔۔؟ اگر نہ پایا تو اصلاح کی کوشش کی ۔۔۔؟ یا کوئی متبادل شرعی حل نکالا۔۔۔۔؟

یا زمانے میں اپنی موم کی ناک اونچی رکھنے کیلئے اس کی زندگی کو ظلم و ستم کی چکی میں پسنے کیلئے بضد رہے۔۔۔۔۔؟

اگر ان تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد بھی تیری بہن، بیٹی ناخلف نکلے تو وہ مجرم ۔۔۔۔۔۔ اگر تو اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا ہے تو پھر وہ نہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ تو اس قابل ہے کہ غیرت کھا کر تیرا گلہ گھونٹ دیا جائے ۔۔۔۔۔!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے