ترک بغاوت اور دنیا بھر کے اخبارات

[pullquote]ترکی میں فوج کے ایک گروہ کا طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کو عوامی طاقت کے ذریعے ناکام بنادیا گیا۔۔۔ 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب مسلح فوجی گروہ کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو صدر طیب اردوان کی اپیل پر عوام، فوج اور پولیس کی مشترکہ کاوش سے ناکام بنا دیا گیا۔ اتوار 17 جولائی کو چھپنے والے دنیا بھر کے اخبارات نے ترکی میں بغاوت سے متعلق خبروں کو شہ سرخیوں کا حصہ بنایا۔۔۔[/pullquote]

پاکستان اور دنیا بھر کے اخبارات کی شہ سرخیوں اور اداریوں پر ایک نظر۔۔۔

پاکستان کے معتبر اخبار "ڈان ” کی شہ سرخی اور اداریے کا جائزہ۔۔۔ ڈان نے لکھا ہے کہ "عوامی طاقت کے ذریعے اردوان نے فوجی بغاوت ناکام بنادی۔۔۔ـ” ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ ججوں اور باغی افواج کی صفائی جاری، امریکا سے روایتی دشمن گولان کی حوالگی کا مطالبہ۔۔۔

روزنامہ ڈان کے اداریے کا عنوان "ناکام بغاوت”۔۔۔ ڈان لکھتا ہے کہ ” ترکی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے لیکن باغی گروہ کو واپس بیرکوں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھتا ہے کہ ترکی میں عوامی طاقت کے ذریعے آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اقتدار والی حکومت کے خلاف فوج کا ایک گروہ برسرپیکار ہے۔ اداریے میں لکھا ہے کہ ان ممالک کو ترک عوام اور حکومت سے سبق حاصل کرنا ہوگی کہ کیسے غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ ممکن ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی لکھی گئی ہے کہ اردوان کو اپنے دشمنوں کا ادراک ہونے کے ساتھ محل وقوع کا بھی علم ہے، لیکن وہ آمرانہ طرزعمل سے خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں اخبار لکھتا ہے کہ”ترکی کی صورتحال سے پاکستان کی فوجی قیادت کو بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عوام، میڈیا اور بعض سیاسی حلقے حکومتی ناکامیوں کے گن گا رہے ہیں اور یوں نواز حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش جاری ہے۔۔۔ ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان کس طرح سے آمریت کے اندھیروں میں جاسکتا ہے۔۔۔ پاکستان ایک دستوری جمہوریت ہے، اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے”

[pullquote]روزنامہ ایکسپریس کی شہ سرخی ” ترک عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنادی، 265ہلاک،2843 باغی گرفتار، 2745جج برطرف” ساتھ ہی لکھا ہے کہ "ترک صدر کا اوباما کو فون، فتح اللہ گولان کی حوالگی کا مطالبہ، عالمی برادری کا ترکی کی صورتحال پر تشویش، جمہوریت کی حمایت” [/pullquote]

4 تصویروں کا ایک دلچسپ کولاج بھی اخبارنے فرنٹ پیج پر شائع کیا ہے جس میں ایک شہری باغی فوجیوں کی بیلٹ چھترول کررہا ہے، بائیں جانب، ٹینک سڑک پر کھڑے ہیں، اسلحہ، وردیاں اور دیگر سامان بکھرا پڑا ہے، شہری باغی ترک ریئر ایڈمرل کے ہاتھ باندھ رہے ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس کے ادارئیے کا ٹائٹل، ”ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش ناکام "اخبار لکھتا ہے کہ فوج کے ایک مسلح گروہ نے اقتدار پر قبضہ کیا، جس میں زیادہ تر کرنل رینک کے فوجی شامل تھے، اس گروپ نے فوجی ہیڈکوارٹرمیں ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوسی اکار سمیت دیگر جرنیلوں کو یرغمال بنا لیا، درالحکومت کے داخلی اور خارجی راستے بند، ایوان صدر کا گھیراؤ، جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی نچلی پروازیں، سرکاری ٹی وی بند، اتاترک ایئر پورٹ میں فوجی ٹینک داخل، تمام ایئرپورٹس پر فوج کا قبضہ، پروازیں منسوخ۔۔۔ صدر طیب اردوان کے پیغام پر ترک عوام ہزاروں کی تعداد میں انقرا اور استنبول کی سٹرکوں پر نکلی، جانوں کی قربانی دی اور ٹینکوں کے آگے لیٹ کر فوجی بغاوت کو پسپا کر دیا”۔ اداریے میں جلاوطن رہنما فتح اللہ گولان کا تذکرہ اور سن 1960 میں ہونے والے فوجی بغاوت کا بھی ذکر ہے۔ اداریے کے آخر میں لکھا ہے کہ "جمہوریت پسندوں کو اس ناکام بغاوت سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر معاملات کو درست کرنے کی سعی کرنی چاہیے ورنہ آنے والے وقت میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں”

[pullquote]روزنامہ جنگ کی شہ سرخی، "ترک عوام جیت گئے، مارشل لا ناکام، لوگوں نے ٹینکوں کے سامنے سینے تان لیے، جانیں دے کر فوجی ٹولے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا، جمہوریت کے خلاف سازش ناکام” [/pullquote]

ادھر انصار عباسی لکھتا ہے کہ "ترکی کی نئی تاریخ میں پاکستان کی فوج، عوام اور حکومت کے لیے سبق” روزنامہ جنگ کے اداریے کا عنوان، ” ترکی میں جمہوریت: نئی اسلامی بہادر ” جنگ نے بڑے ہی مہارت سے اداریے کو مرتب کیا ہے، مسلم ممالک میں فوجی بغاوتوں کا تذکرہ کیا ہے، اداریے میں فتح اللہ گولان کے بیان کو بھی شامل کیا ہے جس میں انھوں نے "فوجی بغاوت کی مخالفت اور بیلٹ کے ذریعے لائی جانے والی تبدیلی پر زور دیا ہے” ساتھ ہی طیب اردوان کی کامیاب معاشی پالیسوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اداریے کا ایک دلچسپ جملہ "ترکی کا تجربہ بتاتا ہے کہ عوام اچھے حکمرانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں” مزید یہ بھی لکھا ہے کہ طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں کو اپنی حکومت کے خلاف بغاوت ناکام ہوجانے کے باوجود میڈیا پر پابندیاں اور عدلیہ پر قدغن کے حوالے سے ہونے والی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے اصلاح کرنی چاہیے اور کشادہ دلی کے ساتھ اپوزیشن مطالبات کو قبول کرنی چاہیے’

اخبار ہندوستان ٹائمز کی شہ سرخی "بغاوت کی کوشش” ہندوستان ٹائمز نے اس کو بس خبر کےطور پر ہی لیا ہے۔۔۔

دی ہندو لکھتا ہے "بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی میں افراتفری کا عالم” اخبار لکھتا ہے کہ ترک افواج کے ایک گروہ جس کو ٹینکوں اور فائٹر جہازوں کی مدد حاصل تھی، عوامی طاقت نے پیچھے ہٹنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔۔۔

دی ہندو کے اداریے کا عنوان "ترکی میں بحران” اخبار لکھتا ہے کہ ترکی فوجی بغاوتوں کے حوالے سے مشہور رہا ہے، ماضی میں چار مرتبہ حکومتوں کو فوجی طاقت کے ذریعے ختم کیا گیا۔۔۔ لیکن سن2002 سے طیب اردوان کی عوام دوست پالیسیوں اور معاشی ترقی نے فوجی بغاوت کو ماضی میں دفن کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اخبار لکھتا ہے کہ ویسٹ ایشیا کی سیاسی بحرانوں کے حل میں ترکی کا اہم کردار رہا ہے۔ ایک غیر مستحکم ترکی کسی کے مفاد میں نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھتا ہے کہ صدر اردوان کی خارجہ پالیسی ان کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے، سیکولر نظریات کے حامیوں پر جبر، اسلامی قوتوں کا ساتھ دینا اور آئین میں تبدیلی کی کوشش سے بحران جنم لے چکا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ترکی کے لبرل قوتوں کو کچلنا، میڈیا پر پابندیاں، سوشل نیٹ ورک کی بندش سے ان کے اندر آمریت جھلکتی ہے۔ لیکن عوام کو پتہ ہے کہ ووٹ کے ذریعے آنے والی تبدیلی فوجی آمریت سے بہتر ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے طیب اردوان کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔۔

[pullquote]اخبار نیویارک ٹائمز لکھتا ہے "ترکی کی ایک غیر متوقع بغاوت سے واپسی” ، اخبار نے امریکی وزیر خارجہ جان کیر کے بیان کو شائع کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا "کہ اس عمل نے تمام لوگ بشمول ترکی کی عوام کو حیرت میں ڈالا ہے، ایسا لگتا ہے ہے کہ بغاوت کی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور عمل درآمد میں کوتاہیاں رہی ہیں” اخبار نے حالات و واقعات کو تصویروں کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔
[/pullquote]

اخبار دی گارڈین لکھتا ہے یہ 70 کا عشرہ تھا جب اقتدار پر قبضے کےبعد فوج سٹرکوں پر سیاسی حالات کا جائزہ لیتی تھی۔۔۔ گارڈین کے مطابق سن 1997کے بعد ترکی میں فوجی مداخلت کے اثار معدوم ہوتے جارہے تھے۔ جب فوجیوں نے باسفورس پل پر ٹینک کھڑے کیے اور ساتھ ہی فضایہ کے جہاز نیچی اڑان بھرنے لگے تو ایسا لگا کہ کہیں جہادی حملہ ہوا ہے۔۔۔ اخبار نے صدر اردوان صدر اردوان کا وہ بیان جس میں وہ کہتا ہے ” بغاوت کی نے اداروں میں موجود باغیوں کی صفایا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، گارڈین نے لمحہ بہ لحمہ بدلتی صورتحال کو ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔۔۔

[pullquote]ڈی ڈبلیو لکھتا ہے "ترکی میں مارشل لا، عوام راستے میں آگئے ” ساتھ ہی صدر کے اس بیان کو بھی شائع کیا ہے جس میں میں انھوں نے سی این این ترکی سے نامعلوم مقام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ "بغاوت کی کوشش ناکام بنادی گئی”
[/pullquote]

وال اسٹریٹ جرنل نے آج کی شہ سرخی میں لکھا ہے کہ امریکا اور یورپی یونین نے بغاوت کی ناکامی کے بعد صدر طیب اردوان کے اقدامات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔۔۔ جرنل لکھتا ہے کہ اس واقعے کے بعد صدر کے حکم پر بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔۔۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے لکھا ہے کہ فضائیہ کے سابق سربراہ نے بغاوت کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا ہے۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق ترک فضائیہ کے سابق کمانڈر نے ملک میں ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ جنرل اکن اوزترک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دوران تفتیش ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’یہ عمل فوجی بغاوت کی نیت سے کیا۔‘

ترکی میں ناکام بغاوت کے حوالے سے دنیا کے بڑے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، اداریوں، سوشل میڈیا اور حکمرانوں کے بیانات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ترک عوام ماضی کی طرح فوج کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔ لیکن ساتھ ہی صدر اردوان کی اپوزیشن اور میڈیا کے ساتھ ناروا سلوک اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے سخت گیر رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔۔۔ پاکستان کی حکمران جماعت کو بھی ترکی کے حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، حکومت کو اقتدار کی حوس سے نکل کر عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے طرف توجہ دینی چاہیے، ماضی کے آمروں اور نام نہاد حمہوری حکومتوں نے عام آدمی کو دکھ اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے، اور نواز لیگ بھی اسی فارمولے پر کاربند ہے۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے