کچھ سیکھا تم نے۔۔۔؟

15اور16جولائی کی درمیانی شب برادراسلامی ملک ترکی میں تُرک سپاہ کےایک گروہ نےاقتدارپرقبضےکی کوشش کی۔ٹینک،مسلح فوجی دستے،ہیلی کاپٹراورجنگی جہازملک بھرمیں سڑکوں ،ہوائی اڈوں اورفضائوں میں پھیلادئےگئے۔عوام انگشت بدنداں،سیاستدان مضطرب اورسیاسی کارکن پریشان جبکہ سرکاری ٹی وی پرباغی فوج کاقبضہ۔ٹی وی پرمارشل لاکااعلان کردیاگیا۔عوام ابھی سوچ وبچارمیں تھےکہ سوشل میڈیاکےذریعے صدررجب طیب اردگان نےایک ویڈیوپیغام جاری کیااورعوام کوکرفیوکی خلاف ورزی کرتےہوئےسڑکوں،میدانوں اورہوائی اڈوں پرپہنچنےکی اپیل کی۔خودسیاحتی مقام سے جہازمیں سوارہوئےاوراپنی جان کی پرواکئےبغیراستنبول کےہوائی اڈےپرآن پہنچےجہاں عوام کی بڑی تعدادان کےاستقبال کوموجودتھی۔

ترک قوم نےاس برےوقت میں اپنی منتخب حکومت کی بھرپورمددکی اورجمہوریت پر شب خون مارنےکی کوشش محض اتحادکی قوت سےناکام بنادی۔ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نےحکمران جماعت کاساتھ دینےکااعلان کیااورجمہوریت پسندی کاواضح ثبوت دیا۔ترک قوم نےجس جرات اورطاقت کامظاہرہ کیاوہ یقیناََآبِ زرسےلکھنےکےقابل ہے۔عوامی طاقت کےمناظردیکھنےسےتعلق رکھتےہیں کہ کہیں فوجیوں کولوگ اپنی بیلٹوں سےماررہےہیں،کہیں ٹینکوں کےآگےلیٹےہوئےہیں اورایک عمررسیدہ خاتون ڈنڈاہاتھ میں لئےجمہوریت کی حفاظت کررہی ہے۔نہتےعوام نےبڑےبڑےٹینکوں،فوجی ہیلی کاپٹروں اوراندھی گولیوں کامقابلہ کیا۔اس سب میں ترک قوم نےبلاتفریق مذہب ونظریہ اوراسلامی وسیکولرکےملکی نظام کوبچانےمیں حکمرانوں کاساتھ دیا۔یہاں تک کہ اردگان کےحریف جناب فتح اللہ گولن نےبھی اس اقدام کی بھرپورمذمت کی اگرچہ اردگان نےانہیں ہی اس بغاوت کاذمہ دارٹھہرایاہے۔

عوام کی مزاحمت کےسامنےفوج بےبس ہوئی اوراس نےسرنڈرکردیا۔اس معرکہ میں قریباََ300افرادلقمہِ اجل بنےجبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔بغاوت کی ناکامی کےبعدتُرک قوم نےخوشی کااظہارکیااوراردگان سےمحبت اورجمہوریت پسندی کاناقابلِ تردید ثبوت دیا۔اس بغاوت کی ناکامی پرترک قوم کےبعدجس قوم نےسب سے زیادہ اس معاملےمیں دلچسپی لی اورخوشی کااظہارکیاوہ ہم پاکستانی ہیں۔ترک قوم سےہماراوالہانہ تعلق خلافتِ عثمانیہ کےدورسےہےاورسقوطِ خلافت پرترکوں کےحق میں ہم نےیہاں تحریکِ خلافت چلائی اوراحیائےخلافتِ کےلئےقربانیاں بھی دیں۔اب کی بارہم نےپھرطیب اردگان کاساتھ دیااور ترک قوم سے مکمل اظہارِ یکجہتی کااظہارکیا۔عوام اورحکمرانوں نےیکساںطورپرترک عوام کی جمہوریت پسندی کوسراہااورفوج کےغیرآئینی اقدام کی دلیرانہ مزاحمت پرانہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔

اس ساری صورتحال میں چندایک سیاسی یتیموں کےعلاوہ ہماراردِعمل خوش آئندہےکہ ہم نےجمہوریت کوبطورِنظام آمریت سےبہترتسلیم کیاہے۔مگراس میں ہمارےلئے بہت سےپیغام موجودہیں۔ہرواقعےیاحادثےمیں کوئی سبق پنہاں ہوتاہے۔جیساکہ قرآن کریم میں کئی جگہوں پراللہ تعالیٰ مختلف واقعات بیان کرنےکےبعدفرماتےہیں کہ تمہارےلئے اس میں عبرت،نصیحت،نشانیاں اورسبق ہیں۔ایسےہی اس واقعہ میں بھی ہمارےلئےبہت سی نشانیاں،نصیحت اورعبرت موجودہے۔بات سوچنےکی ہےکہ ایک راہنمادارالحکومت میں موجودنہیں،باغی ہرطرف پھیلےہوئےہیں اورہوائی وزمینی راستوں کاکنٹرول بھی سنبھال چکےہیں۔اس سب کےباوجودعوام اپنےراہنماکی ایک ہی آوازپرجانوں کی پرواکئےبغیر گھروں سےنکل پڑتےہیں۔راہنماخودبھی بغیرخوف کےاپنی جان خطرےمیں ڈال کرعوام میں آن موجودہوتےہیں۔

ترکی میں جمہوریت کی فتح پرخوش ہونےوالےہمارےحکمرونوں کوسوچناچاہئےکہ ایک راہنمااورعوام میں اتناتعلق کیوں ہے۔؟آخرکیاچیزتھی جس نےعوام کواپنےحکمران کی ایک آوازپرگھروں سےنکلنےپرمجبورکیاجبکہ جان جانےکاخطرہ بھی موجودتھا۔؟یہ سب ان کےحکمران کےبہتراندازِحکمرانی کاجواب تھا۔اس عظیم حکمران نےپچھلے13سالوں میں عوام کوہرطرح کی سہولیات دینےکی پوری کوشش کی اورانہیں مستحکم معیشت دی ۔ملک وقوم کوترقی واستحکام دیااورترک قوم کوباہم منظم ومربوط بنانےکی کوشش کی۔عوام نےان کی آوازپرلبیک کہااوراپنی جانیں دےکرانہیں ان کی خدمات کاصلہ دیا۔اردگان جتنی محبت اپنےعوام سےکرتےہیں عوام نےثابت کیاکہ وہ بھی اپنےمقبول راہنما پراپنی جان تک نچھاورکرسکتےہیں۔بہترطرزِحکمرانی ہی کسی حکمران کےلئےعوام کےدلوں میں محبت پیداکرسکتاہے۔یوں نہیں کہ عوام کی دولت لوٹ کراپنےخاندان کو ہی مستحکم کرنےپرخرچ کیاجائے۔جعلی ووٹ لےکرلوگوں کےسروں پرمسلط ہواجاسکتاہےمگردلوں پرحکمرانی کےلئےعوام کی خدمت کرناپڑتی ہے۔

عوام نےجس قوت کامظاہرہ کیاوہ پاکستان کی عوام کےلئےسبق ہے۔ہمیں ترک قوم سے سیکھناچاہئےکہ قوم کس طرح ہوتی ہے۔؟مسلکی،صوبائی اورقومیتی تعصبات کی وجہ سےمنقسم20کروڑلوگوں کوہجوم توکہاجاسکتاہےمگرقوم نہیں۔قوم اپنےراہنماکی ایک آواز پردوڑےآنےکوکہتےہیں۔قوم ایک مربوط اورمنظم معاشرےکانام ہےنہ کہ اپنےہی بھائیوں کے حقوق غصب کرنےکا۔ یہ نہیں کہ تُرک قوم کواردگان سےکوئی شکایت نہ تھی بلکہ اسی تُرکی میں ہونےوالےبڑےبڑےحکومت مخالف مظاہرےترک عوام نےہی کئےتھے۔اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی اردگان کی مخالفت کاکوئی موقع ہاتھ سےنہ جانےدیتپں مگرجب حکومت پرکڑاوقت آیاتوسب یکجان ویک زبان ہوکراردگان کی جمہوری حکومت بچانےنکل آئے۔تمام سیاسی جماعتوں نےواضح طورپراردگان کاساتھ دینےکااعلان کیااور پوری قوم کومتحدرہنےکی تلقین کی۔ہمیںاپنےحکمرانوں سےبہت گلےشکوےہیں،یہ لوگ ان سےبھی گئےگزرےہیں۔یہ ہماری دولت لوٹ کرخودعیاشیاں کررہےہیں مگرہم خودہی انہیں منتخب کرتےہیں۔ہربارقوم نےمارشل لا کےنفاذپرمٹھائیاں تقسیم کیں کیوں کہ ہمارے حکمران جمہوریت کےنام پرعوام کےحقوقغصب کرتےآئےہیں۔مگریہ بھی حقیقت ہی ہے کہ فوجی حکمران بھی قوم سےمخلص نہ تھے۔اس لئےجمہوریت کومضبوط کرنےکی ضرورت ہے۔عوام توعوام رہےالمیہ یہ ہےکہ ہمارےسیاستدان بھی کڑےوقت میں اپنی پارٹی چھوڑکرآمروں کی جھولی میں جابیٹھتےہیں۔

ہمیں اورہمارےحکمرانوں کوایک دوسرےسےتُرکوں جیسی توقعات رکھنےسےپہلےاپنے رویوں کودرست کرناچاہئے۔ہم اپنےترک بھائیوں کی اس عظیم جمہوریت پسندی پرخوش توہوئےہیں مگرہمیں یہ بھی سوچناچاہئےکہ ہم نےکچھ سیکھابھی۔؟سڑکوں پرپڑےبےبس ٹینک ہمیں یہ بتارہےہیں کہ اگرلوگ ایک قوم بن کراپنےحق کی خاطرباہرآجائیں توٹینک جیسےمہلک ہتھیارکچھ نہیں کرسکتے۔اگرایک قوم خداکی ذات پرغیرمتزلزل یقین،باہمی اتحاداورامیرکی اطاعت کرتےہوئےاپنےملک کےلئےنکل کھڑےہوں توامریکہ کےبعدنیٹو کی دوسری بڑی فوجی طاقت بھی نہتےلوگوں کےسامنےہتھیارڈالنےپرمجبورہوجاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے