آزادکشمیر: الیکشن اور پارٹی سربراہان

٭ راجہ فاروق حیدر، صدر ن لیگ آزادکشمیر
پارٹی ہیڈ ہونے کے ناطے سب سے بہترین کھیلے اور حیران کن رزلٹ سمیٹے۔ اکتالیس میں سے 33 امیدواروں کے سر جیت کا سہرا سجایا ، یہ سب کچھ راجہ صاحب نے خواب میں بھی نہیں دیکھا ہو گا اور بدلتے حالات میں شاید ہی کوئی پارٹی ہیڈ اس طرح کا رزلٹ مستقبل قریب میں دے پائے ۔ یوں اس الیکشن کو اگر مسلم لیگ ن کے نام کیا جائے تو حقیقی معنوں میں اسے ن لیگ کے صدر فاروق حیدر کے نام کیا جا نا چاہیے !

٭ سردار عتیق احمد خان صدر مسلم کانفرنس آزادکشمیر
تین سٹیوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی ہونے کا نہ صرف اعزاز اپنے نام کر گئے ساتھ ساتھ پوری قوت سے للکارے جانے کے باوجود بھی اپنی سیٹ واضح مارجن سے ون کر گئے ، حالانکہ بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اسلام آباد بھی نہیں چاہ رہا کہ سردار عتیق خان اسمبلی میں جائے۔۔۔۔ پوری مخالفت کے باوجود بھی یہ رزلٹ دینا حیران کن نہ سہی لیکن مستقبل کے لئے حوصلہ افزاء ضرور ہے کیونکہ گزشتہ ایک عرصہ سے مسلم کانفرنس عتاب کا شکار ہے اطراف سے ، واقفان حال اسے مسلم کانفرنس کا ریوائیول کہہ رہے ہیں ۔

٭ سردار خالد ابراہیم ہیڈ جے کے پیپلزپارٹی آزادکشمیر
جموں کشمیر پی پی چونکہ حالیہ الیکشن میں ن لیگ کی اتحادی تھی ، چہ جائیکہ سردار خالد ابراہیم صاحب پورے آزادکشمیر میں صرف اپنی سیٹ ہی بچا پائے ہیں لیکن حالیہ حالات کے تناظر میں یہ بھی کسی طور پہ کم نہیں۔۔۔ پونچھ ڈویڑن میں اپنے ہی ایک سابقہ حلقہ سے جموں کشمیر کا امیدوار ہار گیا۔ بہرحال پارٹی ہیڈ کے طور پہ اپنی سیٹ بچا گئے جہاں اس بار بڑے بڑے سیاسی برج الٹے ، بڑے بڑے سیاسی زلزلے رونما ہوئے ، وہیں پہ سردار خالد ابراہیم کے حوالہ سے ن لیگ کے اتحاد کے وقت شنید تھی کہ انہیں صدر ریاست کیلئے نامزد کیاجائے گا اس صورتحال میں ان کی خالی ہونے والی نشست پہ ایک بار پھر دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے اور سردار خالد ابراہیم خان اپنے والد مرحوم غازی ملت سردار ابراہیم خان کی طرح ریاست کے صدر کا حلف اٹھا پائیں گے !

٭ چوہدری عبدالمجید وزیراعظم ، صدر پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر
حکومت کی خراب پراگریس کے باوجود یہ اندازے اپنی جگہ تھے کہ پیپلز پارٹی چھ سات نشستیں آسانی سے جیت جائے گی لیکن عوام نے جس قدر غم و غصہ اور عتاب کا نشانہ اس جماعت کو بنایا اس میں بھی سیاسی جماعتوں کیلئے کافی غور و فکر کا ساماں موجود ہے۔ بطور پارٹی ہیڈ چوہدری مجید نہ صرف اپنی سیت ہار گئے بلکہ پارٹی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا گئے اور پورے اکتالیش حلقوں میں سے محض دو نشستیں ہی حاصل کر پائے اور اس الیکشن کو پاکستان میں بیٹھی اس جماعت کی قیادت بلاول بھٹو کا ٹیسٹ کیس بھی کہہ رہی تھی او ر الیکشن رزلٹ سے قبل بڑے بلند و بانگ دعوے کر رہی تھی کہ چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزادکشمیر میں انتخابی معرکہ اپنے نام کر کے مخالفین کو حیرت میں ڈال دیا ۔

٭بیرسٹر سلطان محمدو چوہدری ، صدر تحریک انصاف آزادکشمیر
بیرسٹر صاحب اس سے قبل پانچ مختلف پارٹیوں کی طرف سے الیکشن لڑ کر جیت بھی چکے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ناقابل شکست ہیں۔ لیکن حالیہ الیکشن میں عوام نے ان کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ تحریک انصاف کے دعوو¿ں کی کلی بھی کھول کر رک دی ، آزادکشمیر کے 29 حلقوں میں سے صرف ایک سیٹ اور ایک سیٹ مہاجرین کے حلقہ میں سے۔ جبکہ دوسری طرف مسلم کانفرنس سے اتحاد بھی کرنا پڑا اور عوامی تحریک کی مکمل حمایت بھی حاصل رہی اورعمران خان صاحب ہمراہ ٹیم آزادکشمیر کے ان انتخابات میں الیکشن مہم کے دوران پورے طمطراق سے جلوہ افروز ہوتے رہے اور اسلام آباد کی سیاست کا خوب پوسٹمارٹم کرتے رہے۔اس کے باوجود بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جو الیکشن سے کچھ قبل انٹر پارٹی تنازعات کا شکار بھی ہوئے تھے کوئی خاطر خواہ پراگریس نہ دکھا سکے اور یوں موجودہ الیکشن میں اس قدر خراب پرفارمنس بنی گالہ میں بیٹھے خان صاحب اور دیگر کے لئے کافی سوچ بیچار کا ساماں لئے ہوئے ہے ، بیرسٹر صآحب پہ پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں پارٹی کے حقیقی کارکنان کو کھڈے لائن لگانے کا الزام بھی ہے۔۔

٭ عبدالرشید ترابی ، امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر
جماعت اسلامی آزادکشمیر نے اس بار الیکشن دو مخلتف اتحادوں کے تجربہ کی صورت میں لڑا۔ ایک طرف امیر جماعت اور ان کی ٹیم نے ن لیگ سے سابقہ اتحاد کو ہی برقرار رکھا چہ جائیکہ پاکستان میں جماعت اسلامی میاں صاحب کی حکومت کو بہت ٹف ٹائم دے رہی تھی۔ ن لیگ سے اتحاد کو عوام نے بھی اسی تناظر میں دیکھا اور اس پہ ری ایکشن بھی کیا۔ جبکہ دوسری طرف سابق امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر نے پونچھ ڈویڑن میں مسلم کانفرنس سے اتحاد کیا ہوا تھا۔ امیر جماعت اسلامی خود تو الیکشن کی اس دوڑ میں موجود نہیں تھے لیکن پورے آزادکشمیر میں جماعت کا کوئی بھی امیدوار اپنا حلقہ انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ حسب وعدہ ٹینکوکریٹ کی سیٹ پہ امیر جماعت کا انتخاب کرتی ہے یا نہیں۔ حتی کہ ن لیگ کے حمایت یافتہ جماعت اسلامی کے امیدوار نورالباری بھی ایل اے 41 سے ہار گئے۔ بہرحال جماعت اسلامی کی سیاست پہ حالیہ الیکشن کئی سوال چھوڑ گیا۔۔۔۔ اور اگر پارٹی ہیڈ کی کارکردگی کے تناظر میں بھی امیر جماعت کو دیکھا جائے تو "بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ” کے مصداق ہی ہے اور سوال کرنے والے تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ محض ایک ٹینکوکریٹ کی سیٹ کے باالعوض امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر نے اپنی ساری سیاسی پارٹی داو¿ پہ لگا دی ، ایک ایسی پارٹی جو بھلے اسمبلی میں موجود نہیں تھی,لیکن خدمت، تنظیم اور سٹریٹ پاور میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات محض پراپیگنڈہ نہیں بلکہ حالیہ واقعات پہ منتج ہیں !

٭ مولانا سعید یوسف ،امیر جمعیت علماءاسلام آزادکشمیر
چہ جائیکہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی میاں صاحب کی حکومت میں شراکت داری اور تحفظ کی تمام تر صورتحال کے باوجود جے یو آئی آزادکشمیر میں ن لیگ سے اتحاد نہیں کر پائی وجہ صرف اور صرف مولانا سعید یوسف کی سیٹ بنی وگرنہ 73 ءکے آئین کے تناظر میں یہاں بھی معاملات چل رہے ہوتے ۔۔۔۔ چونکہ وہاں ن لیگ کے امیدوار، ن لیگ گجرات کے رشتہ دار تھے اس لئے وہ مولانا کی حمایت نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی مولانا اپنی سیٹ پہ کمپرومائز کرنے کو تیار تھے۔ یوں جے یو آئی نے مسلم کانفرنس سے اتحاد کو ترجیح دی ، لیکن یہ اتحاد جہاں ایک طرف مسلم کانفرنس کو فائدہ دے گیا وہیں مولانا سعید یوسف اپنی سیٹ نہ نکال سکے۔ اگر بطور پارٹی ہیڈ دیکھا جائے تو ان کی کارکردگی پہ بھی بیسیوں سولات اٹھائے جا رہے ہیں۔

٭ پیر عتیق الرحمان فیض پوری ،امیر جے یو پی آزادکشمیر
پیر صاحب گزشتہ حکومتوں میں علماءو مشائخ کی وزارت کے مزے لیتے رہے لیکن گزشتہ عرصہ سے جعلی ڈگری کیس میں نااہلی سے گزر رہے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی اور امیدوار اس دوڑ میں موجود تھا اور نہ ہی وہ کبھی خود الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آئے۔ یوں تقدس اور خانقا کے تناظر سے ہٹ کر اگر خالص سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی ان کی پراگریس پہ سوالات اٹھائے جائیں گے

٭ ایم کیو ایم کے آزادکشمیر سیٹ اپ میں مہاجرین کی سیٹوں کے علاوہ کچھ اور تو ہے نہیں ، لیکن ماضی میں کراچی سے دو تحفے آیا کرتے تھے اس بار رینجر آپریشن کے باعث ایک ہی موصول کیا گیا ، اگر کراچی میں امن و آمان کا قیام مکمل طور پہ ہو جاتا ہے تو مستقبل میں وہاں سے بھی کوئی تحفہ شاید ہی نازل ہو !

٭ عوامی تحریک کا آزادکشمیر چیپٹر اکثر جگہوں پہ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کی حمایت میں اپنے امیدواران دستبردار کر چکا تھا لیکن اس کے باوجود بحیثیت پارٹی اس کی منیجمنٹ پہ اور ان کی کارکردگی پہ اور ان کے مستقبل کے حوالہ سے سوالات موجود ہیں۔

٭ اس کے علاوہ علیحدگی پسند گروپوں میں سے اکثریت نے ایکٹ 74 کو چیلنج کرتے ہوئے حسب سابق الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور کچھ امیدوار اکا دکا میدان میں موجود تھے اور کوئی خاطر خواہ پراگریس نہیں دکھا سکے۔۔۔۔ یہاں بھی بحث کی گنجائش موجود ہے کہ انہیں الیکشن سیزن سے ہٹ کر اپنا کیس اور اس پہ عوامی حمایت کے حصول کیلئے رابطہ عوام مہم اور بیداری پہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے

یہ تھا آزادکشمیر کے حالیہ الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹیز کی کارکردگی کا جائزہ حاض کر کے پارٹی ہیڈز کی کارکردگی کے تناظر میں !
ایسے میں لگ یہی رہا ہے کہ آنے والے دنون میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی تو یقیناََ اپنے اپنے تنطیمی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پہ تبدیلیاں لائیں گے اور اس واقعہ سے سبق لے کر مستقبل کے لئے شاندار پلاننگ کریں گے البتہ اس ضمن جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام ، جے یو پی اور عوامی تحریک شاید ہی کوئی بڑا سٹپ لے پائے وہ اسے راضی بارضا کے کھاتے میں ڈال دیں گے اور اعلان کریں گے کہ عوام تبدیلی چاہتے ہی نہیں ہم ہارے نہیں عوام ہار گئی ہے وغیرہ وغیرہ !

آخری سطور میں ن لیگ کو ایک بہت بڑی کامیابی پہ مبارکباد،الیکشن کمیشن اور رینجر کو ایک پرامن انتخابات کے انعقاد پہ مبارکباد اور عوام کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کیا اور الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی میں آزاد ریاست کا امیج پوری دنیا میں بہتر انداز میں پیش کیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے