ترکی: جو جیتا وہی سلطان

یہ بہت عجیب اور تکلیف دہ صورتحال ہے. میڈیا ویسے ہی جھوٹ بولتا ہے. سوشل میڈیا بھی حق سچ کی تلاش کے حوالے سے دگرگوں ہے. جھوٹ، غلط بیانی، جذباتیت، بےپیر وابستگی اور انفرادیت کے گھن چکر میں سچ بےچارہ ہو چکا ہے. لبرل طبقہ ما بعد جدیدیت کی وجہ سے گوڈے گوڈے تک جھوٹ، فریب اور بلاوجہ مذہب دشمنی میں غرق ہونے کی وجہ سے سچ سن سکتا ہے، بول سکتا ہے اور نہ ہی بیان کر سکتا ہے. سیاست، کاروبار، رشتے اور بیانیے اتنے زبوں حال ہیں کہ اِنکے "اصل چہرے” پہچاننا تقریباً ناممکن ہے. لبرل طبقہ اپنی "قیادت” کو برقرار رکھنے سے قاصر نظر آتا ہے. اِسی طرح ہمارے معروض کا مذہبی چیپٹر بھی "بدحال و بدگمان” ہو چکا ہے. روگ اور سوگ کی وجہ سے مذہبی طبقے کے پاس نہ سیادت ہے، نہ سیاست ہے اور نہ ہی مناسب بیانیہ. اِن حالات میں دائیں اور بائیں اطراف سے موشگافیوں اور لن ترانیوں کے راگ پہ راگ سننے کو مل رہے ہیں مگر سچ ناپید ہو گیا ہے.
ترکی کی بغاوت اور اُس کا سیاق و سباق تک مکمل رسائی ایسے ہے جیسے صحرا و بیاباں میں ماہی کی تلاش. جو لوگ کسی بھی واقعے و حادثے کہ بعد یہ کہتے ہیں کہ "ہائیں اچانک یہ کیا ہو گیا؟”، اُن کو اپنے تجزیاتی معاملے کو درست کرنا ہو گا. سیاسی معاملات کو سمجھنے والے لوگ کسی بھی حادثے کو اچانک یا غیرمتوقع سمجھیں تو اُن کے سیاسی شعور کو” شاباش” دینی چاہیے. مگر یہ بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے. صرف جدلیات کی سمجھ بوجھ ہی معاملے کی حقیقی "روح” میں اترنے میں مدد کر سکتی ہے. کیونکہ جواز اور پسِ جواز کا تجزیہ، اور معاملات کے آپسی تعلق کا تجزیہ ہی کسی معاملے کی تہہ تک پہنچا سکتا ہے. ورنہ یہی ہو گا جیسے ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے وقت لبرل اور مذہبی آپس میں دست و گریباں تھے. اردگان کو ہمارے مذہبی کوئی "نجات دہندہ”، مجاہد یا خلیفہ جیسے روپ میں پیش کر رہے ہیں. اور ہمارے پاکستانی لبرل طبقہ بھی اردگان کو ویسے ہی دیکھ رہا ہے جیسے مذہبی طبقہ، لہذا اردگان پہ تنقید اور اُس کی مخالفت تو بنتی ہے. شومئی قسمت اردگان کے معاملے پہ مذہبی اور لبرل کی آپسی چپقلش محض مذہب پسندی اور ناپسندی پہ منحصر ہے. یہ دونوں دھوکہ کھا رہے ہیں. کیونکہ اردگان، ترکی اور ناکام فوجی بغاوت کا موضوعی معروضی تجزیہ بتاتا ہے کہ معاملہ مذہبی ہے ہی نہیں.
وزیراعظم سے صدر بننے کے بعد اردگان خود کے اقتدار کے دوام کی وجہ ڈھونڈ رہا ہے. یہ وجہ ایک سیکولر ملک میں سیکولرازم یا پہلے سے ہی لبرل ملک میں لبرل ازم تو ہو نہیں سکتی تھی. تبدیلی کا ایجنڈا ہے، نہ پروگرام ہے اور نہ ہی اجازت… لہذا لفاظی کی بنیادوں پہ اسلام کا استعمال ہی ایک آپشن بچتا تھا. عوام کی مذہبی وابستگی اور جذباتیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردگان نے اسلام کا نام لینا شروع کر دیا. وگرنہ اردگان کو اسلام سے کوئی لگاؤ نہیں ہے. ملک میں سودی نظام جوں کا توں چل رہا ہے. ترکی کی معیشت کی بنیاد ہی جوئے اور سود پہ ہے، اپنے اقتدار میں اردگان کی کوئی ایک چھوٹی سے کاوش اِن قبیح غیراسلامی اجتماعی معاملات کے خلاف نظر نہیں آئے گی. اردگان کی ساری کوششیں تو یورپی یونین میں رہنے پہ خرچ ہوتی ہیں. کیا ترکی NATO میں بیلجئیم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، نیدرلینڈ، ناروے، پرتگال، برطانیہ، یونان اور امریکہ کا ساتھی اور اتحادی نہیں ہے؟ کیا اردگان کو نیٹو کا افغانستان میں تباہی، بربادی اور موت کا کھیل نظر نہیں آتا؟ کیا اردگان کو عراق میں نیٹو کی جانب سے "ملٹی نیشنل فورس” کے نام پہ بربادیوں اور کشت و خوں کا بازار نظر نہیں آتا؟ کیا اردگان نے ترکی کی 3320 ایکڑ پہ محیط "اِنسرلیک ایئربیس” امریکہ کے حوالے نہیں کی ہوئی جہاں سے امریکی طیارے مسلمانانِ شام و عراق کے چیتھڑے اڑانے کے لیے اڑتے اور اترتے ہیں؟ جہاں جہاں مسلمانوں پہ ظلم و تشدد کا بازار گرم ہے، وہاں وہاں نیٹو موجود ہے، اور اردگان کا ترکی نیٹو ممبر ہے. یہ کیسا اسلامی راہنما ہے؟ کوئی ایک بات جو اردگان کو اسلام پسند ثابت کرے!!!
ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی بنیاد کوئی مذہبی معاملہ قطعاً نہیں ہے. یہ خالصتاً اقتدار کی ہوس کی جنگ تھی. استنبول ائرپورٹ پر آتے ہی اردگان نے کہا تھا کہ ’’اِن کو اس کی قیمت چکانی ہوگی. یہ فوجی بغاوت خدا کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ ہے تاکہ ہم اپنی فوج کی تطہیر کر سکیں”. پھر وہی ہوا، چھ ہزار فوجی سپاہی و جرنیل اور تین ہزار عدالتی جج گرفتار و برخاست کیے جا چکے ہیں. فتح اللہ گولن جسے اردگان نے اس بغاوت کا سرغنہ قرار دیا ہے ایک وقت میں اردگان کا بہترین ساتھی تھا، مگر آج شدید دشمن ہے. اردگان نے اقتدار میں رہتے ہوئے طاقت کے تمام سرچشموں کو اپنی شخصی آمریت میں سمو لیا ہے. اُس کا کوئی دوست نہیں، کوئی ساتھی نہیں اور کوئی پیارا نہیں. یہی وجہ ہے کہ ترکی کے حالات خانہ جنگی کی طرف جارہے ہیں. اپنے خلاف ایک ابھرتی ہوئی طبقاتی تحریک کو دیکھ کر اردگان قومی سطح پہ خانہ جنگی کو ابھارے گا.
ترکی کی معاشی ترقی اور شرح نمو کی بہت تعریف کی جاتی ہے. خیر اب تو شرح نمو گر رہی ہے. لیکن کئی سالوں کی تیز ترین معاشی بڑھوتری کے باوجود آبادی کی اکثریت کے حالات زندگی میں کوئی بہتری نہیں آ سکی جبکہ ایک چھوٹی سی اقلیت کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ نظامِ سرمایہ داری میں ہوتا ہے. لیکن اب جب ملک کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے تو اس کی قیمت بھی غریبوں کو ہی چکانی پڑ رہی ہے. یہ غیرہموار معاشی ترقی عوام میں بےچینی کا سبب بن رہی ہے اور طبقاتی تضاد میں اضافہ ہو رہا ہے. اِنہی بنیادوں پہ ہی 2013ء والی غازی پارک تحریک شروع ہوئی تھی. لیکن قیادت، فریم ورک اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ ناکام ہوئی تھی. یہ بے چینی نہ ہی کم ہوئی ہے، نہ ہی ختم بلکہ اردگان کی آمرانہ پالیسیوں اور اسلامی بنیاد پرستی کی وجہ سے اردگان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے. ناکام فوجی بغاوت کے بعد کوئی بہت بڑا عوامی ابھار دکھا کر اردگان کو ایک مقبول راہنما بنایا جا رہا ہے جو کہ ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں. مثلاً CHP جو کہ اردگان کی سب سے بڑی مخالف پارٹی ہے نے فوجی بغاوت کے دوران اپنے ارکان و کارکنان کو حکم دیا کہ صدر کا ساتھ دیا جائے اور فوجی بغاوت کی مزاحمت کی جائے. اِسی طرح بہت سے لوگ جو اردگان سے تو نفرت کرتے ہیں مگر فوجی بغاوت کے خلاف تھے کیونکہ ترک عوام 1980ء والی خون آشام فوجی آمریت کو نہیں بھولے ہیں.
دراصل ہوا یوں کہ اردگان نے شمالی شام میں موجود کرد SDF کے جنگجوؤں کو دریائے فرات پار کر کے جارابلوس اور آزاز کے درمیان ترک داعش کی کمک کی شہ رگ کو بند کرنے سے نہیں روکا. اس میں کوئی شک نہیں کہ اردگان کی اس خاموش قبولیت پر فوج کے ایک گروپ کو بہت غصہ آیا کیونکہ کسی ایک بات پراگر فوج اور AKP میں مفاہمت تھی تو وہ یہ کہ ترکی اور ارد گرد کے علاقوں میں کرد آزادی کی ہر ممکن مخالفت کی جائے گی. یہی ناراضگی ہی ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کی اصل وجہ ہے. لیکن یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اردگان کو اچانک کردوں اور مارکس وادیوں سے کوئی محبت نہیں ہو گئی بلکہ اُس نے یہ کام مجبوراً کیا.
اردگان پچھلے ایک عرصے سے اپنے زخم چاٹ رہا ہے. روسی، شامی اور ایرانی بلاک کے سامنے ترکی کے پراکسی آلات کو شدید شکست کا سامنا ہے. داعش کی طرف سے بھی خطرات میں اضافہ ہوا ہے، اپنی بلا اب اپنے گلے پڑ رہی ہے، لہذا اردگان نے بشارالاسد کے ساتھ معاملات کو "نارمل” کرنے کی تلقین کی ہے. اِسی طرح روسی جہاز گرانے کے بعد روس سے معافی مانگنی پڑی. اِسی طرح اسرائیل کے ساتھ بھی حالات کو معمول پر لایا گیا ہے. اگر دیکھا جائے تو اردگان سابقہ چھ سالوں سے چلنے والی پالیسیوں سے منہ موڑ رہا ہے. حمید علی زادے کے الفاظ میں:
"اردگان وقتی طور پر مستحکم ہو گا لیکن سماجی، معاشی، سیاسی اور سفارتی انتشار جلد یا بدیر پھٹیں گے۔ اس کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ترک سرمایہ داری اب سماج کو آگے لے جانے کے قابل نہیں رہی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت اس بحران کو سلجھا نہیں سکتی۔ وہ خود حکمران طبقے کے کمالسٹ دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں جو سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ محنت کشوں کی ایک آزاد طبقاتی تحریک کو تعمیر کیا جائے جو نظام کو چیلنج کرے، ترکی میں موجود طاقت ور محنت کش طبقے کو ایک سیاسی متبادل فراہم کرے تاکہ محنت کش طبقہ اس مصیبت سے آزاد ہو کہ حکمران طبقے کے مختلف رجعتی دھڑوں میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے تاکہ وہ ان پر حکمرانی اور استحصال کرتے رہیں”.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے