سائبر کرائمز بل یا صحیفہ جہالت

سائبر کرائمز بل کے مطالعہ کے بعد ایک ہی لفظ ذہن میں آتا ہے : ’’ صحیفہ جہالت ‘‘ ۔ آ پ پوچھیں گے : کیوں تو میں عرض کر دیتا ہوں۔
1۔ اس کے تحت مذہب یا فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت کا پھیلانا جرم ہے ۔ ۔۔۔یعنی اگر کوئی لسانیت اور صوبائیت یا کسی بھی اور تعصب کے تحت نفرت پھیلائے تو یہ جرم نہیں ہے ۔ جرم صرف اس نفرت کا فروغ ہے جو مذہب یا فرقہ واریت کی بنیاد پر پھیلائی جائے گی۔

2۔ اس بل کے تحت بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم ہے ۔۔۔۔یعنی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم نہیں ہے صرف بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنا جرم کیوں ۔عریاں تصاویر کسی کی بھی ہوں ان کی شیئرنگ پر پابندی ہونی چاہیے ۔ لیکن جب عقل سلیم کو زحمت دینے کی بجائے کا پی پیسٹ کے ذریعے قوانین بنیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کسی ملک میں یہ قانون ہو گا یاروں نے اٹھا لیا ہو گا۔

3۔ اس کے مظابق منفی مقاصد کے لیے ویب سائٹ بنانا جرم ہو گا۔۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ منفی مقصد کیا ہوتا ہے۔میرے بھائی وجاہت مسعود ایک ویب سائٹ چلا رہے ہیں اسلامسٹوں کے نزدیک ہو سکتا ہے ان کا مقصد منفی ہو اور وہ ملک میں الحاد کا فروغ چاہتے ہوں ۔اسی طرح میرے بھائی عامر خاکوانی ایک ویب سائٹ چلا رہے ہیں سیکولر احباب کے نزدیک ہو سکتا ہے ان کا مقصد بھی منفی ہو اور وہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا فروغ چاہتے ہوں۔ اس مبہم اصطلاح کی تشریح کون کرے گا۔

4۔ غیر اخلاقی سرگرمی بھی اس بل کے تحت جرم ہے ۔ سوال یہ ہے کہ غیر اخلاقی سرگرمی کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی۔میں اسلام آباد میں گرمیوں میں شارٹ پہن کر پھرتا ہوں ۔ یہاں یہ غیر اخلاقی نہیں ہے۔یہی کام گاؤں میں کروں تو غیر اخلاقی کہلائے گا۔تو اس بات کا تعین کون کریگا کہ غیر اخلاقی کیا ہوتا ہے۔

5۔ کسی فرد کی تصویر اس کی مرضی کے بغیر شیئر کرنا بھی جرم ہے ۔یہاں صرف تصویر کی بات کی گئی ہے ۔ یعنی کوئی صاحب چہرہ بگاڑے بغیر اور منفی کمنٹ دیے بغیر صرف کسی کی تصویر شیئر کر دیں تو جیل جائیں گے۔

6۔ موبائل فون اور وائر لیس میں کوئی تبدیلی لانا بھی جرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ تبدیلی سے کیامراد ہے۔موبائل فون میں کوئی پرزہ ڈلوانا بھی تو تبدیلی ہو سکتا ہے۔

یہ بل مبہم اصطلاحات سے بھرا ہوا ہے۔ ان اصطلاحات کی تشریح کوں کرے گا۔ ایس ایچ او کرے گا۔رہے نام اللہ کا۔

اس صحیفہ جہالت کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آج ہے ۔ قانون بن گیا تو نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔پارلیمنٹ کا حال یہ ہے کہ نیب کے قانون کو آج تک نہیں بدل سکی صرف اچھل کود ہوتی رہتی ہے ۔نیب قانون کے مطابق نیب کے ملزم کی کوئی عدالت ضمانت نہیں لے سکتی۔اسفند یار ولی اس کے خلاف عدالت چلے گئے۔عدالت نے اس قانون کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔حکومت نے آج تک اس شق کو نہیں بدلا چنانچہ آج بھی کوئی عدالت نیب کے ملزم کی ضمانت نہیں لے سکتی۔اعلی عدالتوں پر ایک اضافی بوجھ آ گیا ہے اور اعلی عدالتیں آرٹیکل 199 کی آئینی پیٹیشن کے تحت ضمانت لیتی ہیں۔حکومتوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ معاملات کتنی مشکل سے چل رہے ہیں۔

سینیٹ کی جس کمیٹی نے قانون وضع کیا ہے اس کے سربراہ جناب شاہی سید صاحب ہیں ۔ معلوم نہیں انہوں نے کبھی فیس بک یا ٹوئیٹر استعمال کیا بھی ہے کہ نہیں کیونکہ صاحب کا بنیادی تعارف ایک ٹرانسپورٹر کا ہے۔قریب قریب یہی حال اس کمیٹی کے دیگر اراکین کا ہے۔یہ حضرات اگر سوشل میڈیا پر متحرک ہوتے تو شاید اس کی نزاکتوں کو بہتر جان سکتے۔

تو عزیز ہم وطنو ! ابھی وقت ہے اس صحیفہ جہالت کے خلاف آواز اٹھائیے ورنہ وکیلوں سے ابھی سے راہ و رسم پیدا کر لیجیے ۔آپ کو ان کی شدید ضرورت پڑنے والی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے