سند ھ حکومت کی ترجیحات

پیپلزپارٹی کی قیادت نے قائم علی شاہ کی چھٹی کرکے نئے وزیراعلٰی مراد علی شاہ کو حکومت سندھ کے تخت کا تاج پہنا دیا ہے۔ 87 سالہ قائم علی شاہ نے اپنی لمبی عمر کی طرح طویل عرصے تک پی پی دور حکومت کے اہم عہدوں کے خوب مزے لوٹے ، ان کا شمار بے نظیر بھٹو کے قریبی اور داینہ ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ہر اقدار کے عروج کی طرح ان کی وز رات اعلیٰٰ کا سورج بھی بلا آ خر ڈوب گیا۔ نئے منتخب ہونے والے وزیر اعلٰی کے سامنے بہت سے مسائل ہیں لیکن اگر وہ حقیقت میں کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں وہ تمام مسائل کے اوپر کچھ ہی عرصہ میں بآسانی قابو پا سکتے ہیں ۔ سندھ گورنمنٹ کے پاس وسائل کے ساتھ حکومتی مشینری، قانون ، آئین ، نظام اور سسٹم موجود ہے لیکن حکمرانوں کے پاس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ نیک نیت، سچی لگن، ایمانداری، فرض شناسی ہے جس کا فقدان پایا جاتا ہے ۔

دہشت گردی، کرپشن، لوٹا کھسوٹ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، قتل اقدام قتل، چائنا کٹنگ، سٹریٹ کرائم ، سیاسی بھرتیاں، پینے کا پا نی ، صفائی و ستھرائی، ٹرانسپورٹیشن، وسائل کی تقسیم، یہ وہ بیماریاں ہیں جو کینسر کی طرح کراچی کے معصوم شہریوں کو سالوں سے لاحق ہیں، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم یہ دو نوں بڑی سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل و صورت میں طویل عرصے سے اقتدار پر قا بض رہی ہیں لیکن دونوں جماعتوں نے ان جرائم کو ختم کرنے کی بجائے خوب بڑھاوا دیا، پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کے رہنماؤں ان جرائم میں ملوث رہے ہیں ، پیپلزپارٹی کی اعلٰی قیادت سمیت کئی رکن اسمبلی ملک سے فرار ہیں ان پر کرپشن کے میگا سیکنڈل کے کیس درج ہیں۔
پاکستان کا شہر کراچی2 کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ہے یہ پاکستان کی سب سے بڑا تجارتی و اقتصادی حب ہے ۔

کراچی آپریشن کے بعد زندگی کی رمق دوبارہ بحال ہو گئی جہاں ماضی میں کراچی کو ایک خوف و دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا ، آئے روز دھماکے، دہشت گردی، اغواء، قتل و غارت ، لوٹ مار کے جرائم سر عام اور دن دہاڑے رونما ہوتے ،جہاں سیاست صرف لاشوں پرہوتی ۔ رینجر اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے آگے بڑھ کر اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرکے امن و سکون کو دوبارہ اس شہر کو لوٹایاہے ۔ گلیوں ، بازاروں ، مارکیٹوں میں گہما گہمی اور چہل پہل کا سماں ہے عوام نے رینجر پر بھرپور اعتماد کیا ہے ہر طبقہ فکر میں ان کی عزت بڑھ گئی ہے اس لئے کراچی کے شہری ان کی کاوشوں پر انھیں دل و جان سے سلام پیش کر تے ہیں اور ان کا درینہ مطالبہ ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہنا چاہیے ۔کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے خلاف1303 پیپلز امن کمیٹی کے خلاف 1035 اے این پی کے خلاف28 بار ایکشن لیا گیا۔ آپریشن کے دوران 838 ٹارگٹ کلرز 1236 دہشت گرد گرفتار ہوئے جنہوں نے 7000 ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔

دہشت گردوں نے ایک بار پھرکراچی کے اند ر دہشت گردی اور شدت پسندی پھیلنے کی کوشش کی ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں امجد صابری کا بہیمانہ قتل ،سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے بیرسٹر اویس شاہ کا اغوا، پولیس کے ڈی ایس پی کی ٹارگٹ کلنگ اور اب حال ہی میں حساس ادارے کے دو اہلکار کی شہادت یہ ایسے واقعات ہیں جن نے خوف و دہشت کو دو بارہ جنم دیا ہے۔

اویس شاہ کی بازیابی بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مرہون منت ہے جوخیبر پختو خواہ کے علاقہ ٹانک میں سرچ آپریشن کے نتیجے عمل میں آئی۔ سب سے زیادہ تشویش ناک صورتحال ہماری صوبائی حکومتوں اور بارڈ کنٹرول ایجنسی کے لئے ہے۔ اویس شاہ کراچی سے اغواء ہوئے اور بآسانی خیبر پختونخواہ پہنچ گئے، ا ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اغواء کارکس طرح120 سے زیادہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چوکیاں اور چیکنگ پوائنٹ کراس کرنے میں کامیاب ہوئے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ ماضی میں اس سے ہی ملتا جلتا واقعہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا ہے جس کو اغواء کار ملتا ن سے افغانستان لے گئے جو بعد میں نیٹو کی کاروائی کے دوران بازیاب ہوئے۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اویس شاہ کے اغواء میں طالبان کا گروپ ملوث ہے۔

حالیہ کراچی بد امنی کیس کے دوران بہت سے شواہد سے پردہ فاش ہوا، ماضی کے اندر ہر سیاسی پارٹی (پی پی پی ، متحدہ، اے این پی) کے ٹارگٹ وینگ موجود رہے ہیں جو ہر سیاسی پارٹی اپنے مخالفین کودبانے کے ساتھ ساتھ شہر کے حالات خراب کرنے اور عام شہریوں کو خوف و ہراس پھیلانے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔کراچی میں سیاسی پارٹیوں کے شدت پسند وں کے ساتھ دہشت گردی میں مطلوب شمالی وزیرستان سے بھاگے دہشت گرد بھی یہاں رو پوش رہے ہیں جن کی شناخت یقین مشکل ہے۔ باہر سے ٹارگٹ کلرز کو پیسے اور ہدایت جاری کرنے والے ہاتھ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی راء کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں جس کے بہت سے کارندے سندھ اور بلوچستان سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اپنی تحویل میں لئے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے کراچی کے ساتھ پاکستان کے دیگر شہروں میں دہشت گردی اور حالات کو خراب کرنے کے لئے اب ساؤ تھ افریقہ اور دبئی میں اپنے اڈے قائم کر رکھے جہاں سے وہ اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں اس کے ساتھ عالمی فنڈنگ کی مد میں برطانیہ اور تھائی لینڈ سے دہشت گرد کی پشت پناہی بھی جاری ہے ۔ کراچی اور اندورن سندھ میں جرائم پیشہ گروہ اوران کے نیٹ ورک کی سیاسی سرپرستی کا بنیادی سبب کرپشن اور پیسے کے بل بوتے پر ہونے والی تباہ کن سیاست ہے۔ کراچی کے اندر گڈ گروننس کی بجائے مٹھی بھرکر پٹ سیاسی اور شدت پسند گروہوں نے سندھ کے عوام کو جمہوری ثمرات سے دُور رکھا ہوا ہے۔

2013 کے بعد سے کراچی آپریشن پر رینجر احکام نے رپورٹ مرتب کی جس کے مطابق اب تک 7900 ملزموں میں سے6360 کوپولیس کے حوالے اور 221 کو کسٹم حکام کے سپرد کیا گیا۔ 5518 افراد کو بغیر ایف آئی آرکے کراچی پولیس اور ایف آئی اے نے سیاسی دباؤ پر رہا کر دیا ہے جبکہ 313 افراد کو ضمانت ملی ، جب کہ صرف 188 ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کے حکمرانوں کس قدر محب وطن ہیں اور صوبائی گورنمنٹ کس ایجنڈے کے تحت حکومت کر رہی ہے ۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کس قدر بے بس اور مجبور ہیں اور کیا وجہ ہے کہ رینجر کا آپریشن اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پار ہا ہے۔رینجر حکام مجرم پکڑ کر قانون کے رکھوالوں کے سپرد کرتے ہیں جبکہ پولیس سیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات کے تحت ان کو چھوڑ دیتی ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ پی پی پی کی قیادت ان تما م سیاسی بہانوں کو چھوڑ دے اور صوبائی حکومت کسی قسم کی حیل و حجت نہ دیکھائے، کراچی کے اندر امن و امان ان کی پہلی ترجیحی ہونی چاہئے اس کے لئے جو بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ان کو فوراً نافذالعمل کیا جائے۔کراچی کوحقیقی معنوں میں امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لئے سندھ حکومت کو مصلحتوں سے بالا تر ہو کر عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی دباؤ سے نکل کر جرائم کے خاتمے کے لئے یکساں کاروائی کرے ، مجرم چاہے کوئی بھی ہو،اس کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق ہو، جو چاہئے کتنا ہی بااثر اور طاقت ور ہو، اس کو گرفتار کرے کہ عدالت کے کٹہرے میں پیش کر ے۔ انصاف ، امن و امان کا قیام ہر حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ شہریوں میں خوف و ہراس ختم ہوسکے۔ نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو صوبے کے اندر پائیدار امن کے لئے ایسی فضا بنانا ہو گی جس میں دہشت گرد ی کے خلاف تمام محب الوطن قوتیں یکسوئی کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد گار نظر آئیں۔

دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پوری قوم ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح یک جان ہے۔ پاکستان دشمن قوتوں کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کراچی سے خیبر تک دہشت گردی کے ذریعے جنگ کو بڑھایا جائے اوراس کے وہ ہر حربے آزما رہے ہیں ، ایسے میں تمام شہریوں کو مل کر دہشت گرد اور سازشی عناصر کا قلع قمع کرکے وطن عزیز کی بقاء اور سا لمیت ناگزیز بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ قوم کے ہر طبقے اور حلقے کو یک جان ہو کر نہ صرف اپنا کردار نبھانا ہو گیا بلکہ بغیر کسی امتیاز و فرق، رنگ و نسل کے مل جل کر کام کرنا ہو گاکون سیاست سے تعلق رکھتا ہے، کون وردی پہنتا ہے ، کس کو اسلحہ ہتھیار استعمال کرنا ہے اور کسی کو قلم کی طاقت بروئے کار لانی ہے ۔ پوری پاکستانی قوم بھرپور عزم کے ساتھ افواج پاکستان کی پشت پر ضرب عضب اور آپریشن خیبر کے موقعے پر کھڑی ہے ۔ہمار ے فوجی جوانوں ، رینجر اور پولیس سمیت سیکورٹی اداروں نے بہترین صلاحتیوں اور توانائیوں کے ساتھ دہشت گردی اور بیرونی جارحیت میں گراں قدر قربانیاں پیش کی ہیں۔ دفاع پاکستان کی اس جنگ میں عام شہریوں کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء کا لہو بھی شامل ہے اور اسی طرح کئی علاقوں میں لوگوں کو اپنا گھر بار ،مال مویشی چھوڑ کر مہاجرت کی زندگی گزارنی پڑی، وہ تمام شہری جنہوں نے اس ارض پاک کی سلامتی و خوشحالی کے لئے جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں ہیں وہ تمام افراد ہمارے ہیرو ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے