وگدی اے راوی ۔۔

لاہور میں بارشوں نے تباہی مچائی تو لوگوں نے شور مچا دیا۔ حالانکہ یہ تو فائدہ والی بات ہے۔۔ اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟ رکشے، ٹیکسیوں اور گاڑیوں کا تو کیا کہنا ، گھر بھی پانی میں ڈوب گئے ،سڑکوں کے بیچوں بیچ گڑھے پڑ گئے اور ٹرک ان گڑھوں میں گر گئے، لوگ چھاتی چھاتی پانی میں سے تیر کر جاتے رہے۔اس میں کیا اچھی بات ہو سکتی ہے یا کسی کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟۔ اسی لیے تو کہتا ہوں پڑھ لکھ لینا اچھا ہے، میں نے تو کچھ دن پہلے اخبار میں پڑھا تھا کہ لاہور میں پانی کی سطح نیچے جانے سے پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی ، پینے کے پانی میں یہ مقدار غالباً دس فیصد ہوتی ہے مگر سطح نیچے جانے سے یہ مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اگر بارش کا پانی اسی طرح سڑکوں پر کئی دن رہے اور نالوں سے ہوتا دریا میں نہ جا گرے تو یقیناًیہ سطح اوپر آئے گی اور ایک بار پھرلاہور کا پانی پینے کے قابل ہو سکتا ہے۔۔ ویسے تو اب بڑی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بھی پینے کا صاف پانی فروخت کر رہی ہیں لیکن پی سی آر ڈبلیو آر کے مطابق ان میں سے نوے فیصد پانی نہ صرف یہ کہ پینے کے قابل نہیں بلکہ مضر صحت بھی ہے۔

ہمارے ایک دوست نے بنی گالہ میں منرل واٹر کا کارخانہ لگایا تو معلوم ہوا کہ اگر اچھا اور صاف پانی بنانا مقصود ہو تو اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اٹامک انرجی کمیشن اور کوالٹی سٹینڈرڈ کے کئی اداروں سے اس پانی کے ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں ہم تو سمجھتے تھے ٹیسٹ صرف انسانوں کے ہوتے ہیں مختلف پتھالوجیکل لیبارٹریوں سے جن میں سے ڈاکٹر اپنا کمیشن نکال کر بڑی بڑی کوٹھیاں بناتے ہیں۔ لیکن معلوم پڑا کہ اگر آپ نے دو نمبر قسم کا پانی نہیں بنانا اور صرف مال نہیں بٹورنا تو اچھی خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔

میرے گھر میں بھی پینے کا پانی ایک بڑی کمپنی سے آتا ہے، اس کی انیس لیٹر کی بڑی بوتل جو 2006 میں غالباً نوے روپے کی تھی اب دو سو روپے کی ہو چکی ہے کئی لوگوں نے سستی کمپنی کے بارے میں بتایا لیکن ہمت نہیں ہوتی کہ سستے کے چکر میں ڈاکٹروں کے چکر نہ لگوانے پڑ جائیں اس لیے مجبوری میں اسی بڑی کمپنی کا پانی ہی پینے پر مجبور ہیں ۔ کیا کریں ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کی قیمت کب بڑھا دی جائے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، بچوں کی سکول فیس ہو، گوشت ہو، دال، چاول، سبزی، پھل یا کوئی بھی شے ہو۔۔۔ بیچنے والے کو یہ اختیار حاصل ہے وہ جب چاہے اپنی مرضی سے جتنا چاہے اضافہ کر لے کوئی روکنے والا ہے۔

چھ سال میں میرے بچے کی سکول فیس چار ہزار روپے مہینہ سے بڑھ کر اب ساڑھے دس ہزار روپے مہینہ ہو چکی ہے، اب کوئی ان کو یہ بتائے جناب مہنگائی صرف آپ کے لیے ہے ہمارے لیے نہیں؟ آپ نے تو اپنی فیس بڑھا دی، ہماری تنخواہیں تو سیٹھ صاحب نے نہیں بڑھائیں اور معلوم نہیں مستقبل میں بڑھیں گی یا نہیں کوئی علم نہیں۔ بہرحال جیسے آپ مجبوراً بچوں کو سکول سے نہیں نکال سکتے ، اسی طرح پانی کی قیمت بھی اگر ڈبل ہو جائے تو مجبوری ہے پینا تو ہے۔۔ ہم کوئی برطانیہ جیسے تھوڑا ہی ہیں کہ ڈبل روٹی کی قیمت بغیر پیشگی اطلاع کے بڑھا بیٹھے ، گوروں نے ڈبل روٹی خریدنا بند کر دی، ایک ہفتہ میں جب لاکھوں ڈبل روٹیاں خراب ہو گئیں تو عقل ٹھکانے آئی اور قیمت بھی اپنے ٹھکانے پر واپس آئی۔

یہاں رمضان میں کئی دوستوں نے یہ مہم شروع کی سوشل میڈیا پر کہ پھل کھانا چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس کی قیمت اچانک بہت زیادہ کر دی گئی لیکن کوئی انہیں یہ بتائے یہاں سب آپ جیسے نہیں جو جا کر دس ٹھیلوں سے قیمت پوچھ کر آدھا کلو سیب لیتے ہیں اور چھ کیلے، یہاں ایسے بھی ہیں جو قیمت پوچھے بغیر دکان خالی کر جاتے ہیں۔اسی لیے جب آپ پھل والے سے پوچھتے ہیں کیلا اتنا مہنگا کیوں ہے ؟ تو پھل والا کاٹ کھانے والے لہجہ میں کہتا ہے کبھی پھل پہلے کھایا ہے؟ اور میرے جیسے کئی لوگ یہ والا گستاخانہ سوال پوچھتے نہیں کیونکہ جواب ریڑھی والے کے ماتھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ بھی ہمارے مڑتے ہی بڑی نخوت سے پھل کو اس طرح دوبارہ صاف کرتا ہے جیسے ہمارے ہاتھوں کی مٹی اس پر منتقل ہو گئی ہے۔

خیر۔۔ بات ہو رہی تھی لاہور کی۔۔۔ جہاں لوگ پانی نہ ملنے پر بھی پریشان ہوتے ہیں تو پانی زیادہ آنے پر بھی۔۔ کبھی کہتے تھے کہ ہمارا راوی سوکھ گیا ہے اب جب ہر گلی راوی جیسا منظر پیش کرنے لگی تو لگے حکومت کو گالیاں دینے، بلکہ گالی بھی کیا انہیں پٹواری کے نام سے یاد کرنے لگے۔ احسان فراموش جو ٹھہرے، دعائیں دو اپنے خادم اعلیٰ کو ۔۔ جس نے بڑی بڑی سڑکیں بنوائیں، پل بنوائے مگر نکاسی آب کا نظام نہیں بنوایا ، کیوں؟ اس لیے کہ جناب آپ بغیر پیسے خرچ کیے واٹر پارک کی سیر کر سکیں۔ میں تو کہتا ہوں یہ گالم گلوچ چھوڑیں، اپنی موٹر سائیکل اور گاڑیاں بیچ کر نئی کشتیاں یا موٹر بوٹس خریدیں اور نکل پڑیں سیر کو۔۔۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی موٹر بوٹ کسی وی آئی پی کے روٹ کی وجہ سے کہیں روکی نہیں جائے گی۔ ہے ناں فائدے والی بات؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے