غلامی کا خاتمہ اور اسلام

غلامی دور جدید میں ایک ناقابل تصور چیز بن چکی ہے۔ تاہم معلوم انسانی تاریخ میں یہ انسانی معاشروں کا ایک لازمی حصہ رہی ہے۔ ایک جدید تعلیم یافتہ شخص جب قرآن مجید میں غلامی کا ذکر دیکھتا ہے تو اسے سخت حیرت اور صدمہ ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ چیز اسلام کی حقانیت پر شبہ کا سبب بن جاتی ہے۔

جو لوگ اس حد تک نہیں جاتے ان کے ذہن میں بھی اس حوالے سے بہت سے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ قرآن مجید نے جس طرح شراب اور سود کو بتدریج حرام قرار دیا غلامی کو بھی صراحت کے ساتھ حرام قرار دے دیا جاتا۔ اس میں کیا حرج تھا۔

یہ ایک بہت معقول سوال ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ایسا نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ غلامی نہ صرف انسانی معاشرے کی لازمی ضرورت بن چکی تھی بلکہ اس کے عرف میں داخل ہوکر فکری جواز حاصل کرچکی تھی۔

غلامی کا آغاز تاریخ میں اس وقت ہوا جب انسان زرعی دور میں داخل ہوا۔ جنگ و جدل میں جو قیدی پکڑے جاتے وہ قتل کردیے جاتے۔ وقت کے ساتھ لوگوں کو احساس ہوا کہ قیدیوں کو قتل کرنے کے بجائے اگر ان کو زندہ رکھ کر زرعی زمینوں اور گھروں میں کاموں کے لیے استعمال کرلیا جائے تو قیدیوں کو زندگی کا حق مل جائے گا اور فاتحین ان کی خدمات سے فائدہ اٹھالیں گے۔ چنانچہ غلامی کا سلسلہ ظلم کی ایک کم تر شکل کے طور پر شروع ہوگیا۔ یہیں سے اسے فکری اور اخلاقی جواز مل گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ لونڈی غلام خدمت گزاروں کے طور پر معاشرے کی ناگزیر ضرورت بن گئے۔جس کے بعد بردہ فروشی شروع ہوگئی۔قبائلی دور میں جو مرد یا عورت اپنے قبیلے سے جدا ہوتی یا جو قبیلہ کمزور ہوتا اس کے افراد کو پکڑ کر غلام بنالیا جاتا اور بڑے شہروں میں فروخت کردیا جاتا۔قبائلی عصبیت اور حمایت سے محرومی کے بعد کسی لونڈی غلام کے لیے یہ سوچنا بھی ممکن نہ تھا کہ وہ دوبارہ ایک آزاد زندگی گزارسکے۔وہ کسی طرح آزاد ہوبھی جاتا تو تنہا نہ اپنے تحفظ پر قادر تھا نہ اس دور میں ایسے معاشی مواقع دستیاب تھے کہ وہ خود سے آزاد زندگی گزارنے کا سوچ سکتا۔ اس کا مالک اس کے ساتھ جو کچھ بھی سلوک کرتا، اس کی واحدپناگاہ اور واحد کفیل تھا۔بردہ فروشی کے علاوہ تاوان اور قرض کی عدم ادائیگی، قتل کی دیت اور کسی جرم کی سزا کے طورپر بھی فرد کی آزادی سلب کرکے اسے کسی کی غلامی میں دے دیا جاتا۔یوں سماج نے ہر پہلو سے غلامی کو اپنالیا۔

ایسے میں غلامی کے مکمل خاتمے کے لیے انسانوں کے سماجی، معاشی اور فکری نظریات میں تین تبدیلیاں آنا ضروری تھیں۔ پہلی یہ کہ آزادی کو انسان کا سب سے بڑا حق مان لیا جائے اور ہر قیمت پر اس کا تحفظ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ معاشرہ اس بات کو یقینی بناتا کہ ہر شخص کے روزگار کا یقینی انتظام کیا جاتا۔تیسرا یہ کہ دنیا قبائلی تمدن سے نکل کربین الاقوامی معاہدات کے اس دور میں پہنچ جائے جہاں دنیا ایک بین الاقوامی قانون بنانے کے قابل ہوجاتی۔

ان تینوں تبدیلیوں کے بغیر اگر سارے لونڈی غلام ایک حکم سے رہا کردیے جاتے تو بیشتر غلام خود ہی رہائی لینے سے انکار کردیتے۔ خاص کر ایک اسلامی معاشرے میں جہا ں غلاموں کے ساتھ حسن سلوک ایک دینی مطالبہ تھا۔غلاموں کے نزدیک آزادی سے زیادہ ایک دولت مند مالک کی خدمت کرکے چھت، لباس اور خوراک کی یقینی فراہمی زیادہ اہم تھی۔وہ آزادی حاصل کرلیتے تو روزگار نہ ملتا اور کسی اور علاقے میں جاتے تو دوبارہ غلام بنالیے جاتے۔

اس لیے اسلام نے ایک فطری انداز اختیار کیا۔ اور یہ حق غلاموں کو دے دیا کہ وہ معاوضہ دے کر آزادی حاصل کرلیں۔اسلام کے اس حل میں یقیناًمسلمانوں کے اخلاقی انحطاط کے ساتھ کچھ عملی خرابیاں در آئیں۔ لیکن مذکورہ بالا تینوں تبدیلیوں کے بغیر ایسا کوئی حکم دینا کار لاحاصل تھا۔

دور جدید میں مغرب کے علمی اور صنعتی انقلاب نے ان تینوں پہلوؤں سے سماج کو بدل دیا۔ آزادی دور جدید میں سب سے بڑی انسانی قدر قرار پاگئی ۔یہ اسی فکری تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ غلامی کا نام سن کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ورنہ زمانہ قدیم میں اسے ہر طرح کا اخلاقی اور قانونی جواز حاصل تھا۔چنانچہ اسی پس منظر میں دنیا نے غلامی کو عظیم ترین ظلم سمجھنا شروع کردیا۔ دوسرے یہ کہ صنعتی انقلاب نے بڑے پیمانے پر ملازمت کے مواقع پیدا کردیے۔ہر غلام کے لیے موقع تھا کہ وہ آزادی کے بعد کسی نہ کسی طرح اپنی گزر اوقات کا بندوبست کرلے۔ تیسرے یہ کہ بین الاقوامی ریاستی معاہدات نے رفتہ رفتہ پوری دنیا کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے ہاں غلامی کو ختم کردیں۔

اس لیے اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر کسی قسم کا اعتراض اٹھانا قرآن مجید ہی سے نہیں اس بات سے بھی بے خبری کا ثبوت ہے کہ انسانی معاشرے کیا ہوتے ہیں اور کن اصولوں پر چلتے ہیں۔

[pullquote]ابو یحیٰ مشہور ناول ” جب زندگی شروع ہو گی ” کے مصنف ہیں .[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے