یہ روم ہے کھیلوں کے مقابلے شروع ہو چکے ہیں سٹیڈیم لوگوں سے بھر چکا ہے جنہیں ٹکٹ نہیں ملا وہ سٹیڈیم کے اردگرد موجود رہ کر نعروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اتنے میں کچھ قیدیوں کو لایا جاتا ہے اور انہیں سٹیڈیم کے کے درمیان میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اتنے میں دروازے کھلتے ہیں اور کئی روز کے بھوکے شیر برآمد ہوتے ہیں یہ بے کس اور نیم برہنہ قیدی حسرت بھری نگاہوں سے تخت پر بیٹھے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہیں جو ملکہ کے ساتھ تشریف فرما ہے ہزاروں لوگ نعرے لگا رہے ہیں وہ ان لوگوں کو تڑپتا دیکھنا چاہتے انہوں نے اس بات کے لیے پیسے دیے ہیں کہ ان کو سسکتے بلکتے دیکھیں ان کی عبرناک موت کا مشاہدہ کریں درجن بھر شیر ان کے گرد چکر لگاتے ہیں اور پھر پیچھے ہٹتے جاتے ہیں اور دیوار کے ساتھ جا کر بیٹھ جاتے ہیں عوام زور کی نعرہ بازی کرتی ہے کہ شیر حملہ کریں بادشاہ اور ملکہ بھی چیخ پکار سننے کے لیے بیتاب ہیں مگر شیر حملہ نہیں کرتے بھوک سے نڈھال شیر حملہ نہیں کرتے ان کے حملہ کرنے نے بھوکے انسان نما لوگوں کی جو تسکین کرنی تھی وہ نہیں ہو پا رہی عوام غصہ میں ہیں ایسے میں بادشاہ شیروں کی رکھوالی کرنے والے کو طلب کرتا ہے اور حکم دیتا ہے اس کے سر اور بدن کے درمیان موجود تعلق کو ختم کر دو کیونکہ اس نے شیروں کے وحشی پن کو لگام دے دی ہے بادشاہ کا یہ حکم سن کر عوام کا جوش عروج کو پہنچتا ہے اور جیسے ہی باد شاہ تلوار چلانے کا حکم دیتا ہے اتنی زور سے خوشی کا اظہار ہوتا ہے جیسے جو وہ دیکھنے آئے تھے اس کام کا آغاز ہو گیا بادشاہ کے ساتھ بیٹھی خوبرو ملکہ بھی شدت جذبات سے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتی ہے مجھے نہیں معلوم سوشیالوجی کے ماہر دوست ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوتا ہے کہ پوری قوم انسانی قتل عام پر خوشی کا اظہار کرے خواتین اچھل اچھل کر داد دیں ہاں ظلم ہوتا رہا ہے
قارئین کرام ان چہر وں پر موجود وحشت کا اندازہ لگائیں ان دھڑکنوں کو محسوس کریں جو ان قیدیوں کی بے بسی کی عکاس تھیں پھر خوشی سے بجتی ان تالیوں ،تالیاں بجانے والے ان چہروں کو تصور میں لائیں پھر اپنے ضمیر سے پوچھیں تو آپ کا ضمیر آپ کو انسان ہونے پر ملامت کرنے لگے گا کہ میری جنس کے لوگ کیسے کیسے ظلم کرتے رہیں… آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شیروں کے رکھوالے کو سزا دینے کے بعد کھیل ختم ہو گیا ہو گا نہیں ایسا نہیں ہے بادشاہ اور عوام کی تسکین قلب نہیں ہوئی بادشاہ حکم دیتا ہے کہ لڑنے والوں کا ایک گروہ لایا جائے وہ آپس میں تلوار زنی کرے ایسا ہی کیا جاتا ہے جب ایک سپاہی دوسرے کو گرا لیتا ہے تو اس کے گلے پر تلوار رکھ کر بادشاہ سلامت کی طرف دیکھتا ہہے بادشاہ ملکہ کی طرف دیکھ کر ہاتھ اٹھاتا ہے بادشاہ کی پیروی میں ہزاروں ہاتھ اٹھتے ہیں اور شدت فرحت کا اظہار کرتے ہوئے قتل کا اشارہ کرنے لگتے ہیں بادشاہ اشارہ کرتا ہے تو تلوار گلا کاٹ دیتی ہے یا سینے میں پوست وہ جاتی ہے عوام خوشی میں گلے پھاڑ پھاڑ کر داد دیتی ہے
سوچ رہا ہوں اجتماعی شعور اس قدر خونی ہو سکتا ہے کبھی سوچا نہ تھا مگر یہاں تو ہر قتل پر داد ملتی ہے خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے شائد کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی دانش راستہ بھٹک جاتی ہے اور انسانیت کی قاتل بن جاتی ہے جسے قتل و غارت سے سکون ملتا ہے… اسی پر غور کر رہا تھا کہ میرا خیال ان انسان نما لوگوں کی طرف چلا گیا جو وطن عزیز میں گلے کاٹتے ہیں اور بجائے ندامت کے اظہار مسرت کرتے ہیں میرا خیال اردن کے اس پائلٹ کی طرف چلا گیا جسے زندہ جلایا گیا تھا اور جلانے والوں کے چہروں پر سکون تھا میرا ذہن عراق میں داعش کے ہاتھ قتل ہونے والے لوگوں کی طرف چلا گیا کہ سینکڑوں لوگوں کو گولیاں مارنے کے بعد ان کے چہروں پر سکون تھا یہ سکون بے سکون کر دیتا ہے
اس سےلگتا یہ ہے کہ بعض اوقات انسان زندہ رہتا ہے اور انسانیت مر جاتی ہے جانے انسانیت کے مرنے کے بعد موجود بت کو انسان کہا جائے گا یا اسے کچھ اور نام دینا زیادہ مناسب ہو گا کیا کیا جائے انسانیت تو روز ہمارے اردگرد قتل ہوتی ہے بھوک سے نڈھال ہاتھ پھیلائے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہیں ہسپتالوں میں مریض دوائیوں کے لیے تڑپ رہے ہیں ہزاروں بیٹیوں کے جذبات قتل ہو رہے ہیں یہ سب ہمارے سامنے ہو رہا ہے یہ سب انسانیت کا قتل ہے بیٹا ماں باپ کو گھر نکال دیتا ہے اولڈ ہوم میں والدین بیٹے سے بات کرنے کو ترستے ہیں یہ بھی انسانیت کا قتل ہے دوسروں کی برائی جلدی نظر آ جاتی ہے مگر اپنی برائی کوئی نہیں دیکھتا کوشش کریں اس برائی کو چھوڑ دیں جو ہم میں موجود ہے