رسل کا مالی اور مولوی عبدالحق کا نام دیو،مالی

مختارصدیقی جتنے عمدہ شاعر تھے، اس حساب سے ان کوناقدین اور قارئین کی توجہ حاصل نہ ہوئی۔ان کی کتاب ’’منزل شب ‘‘کو جدید شاعری کے اہم مجموعوں میں گنا جاسکتا ہے لیکن اب اس کا ذکرپڑھنے سننے کو کم ہی ملتا ہے ۔ اس وقت مختار صدیقی کی شاعرانہ حیثیت سے بحث نہیں ،ہمیں ان کی علمی شناخت کے ایک دوسرے حوالے، ترجمہ نگاری سے متعلق بات کرنی ہے ۔ چینی دانشور لین یوتانگ کی کتاب کا ان کے قلم سے ترجمہ ’’جینے کی اہمیت ‘‘کے عنوان سے چھپ کرمقبول ہوا ۔

ممتازنقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ایک دفعہ بتایا کہ’ ان کا رجحان سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف تھا مگر ایف ایس سی میں ’’جینے کی اہمیت ‘‘کا مطالعہ دل و دماغ کی دنیا بدلنے کا باعث بن گیا اور ان میں سائنس کی تعلیم تج کر انسان اور زندگی سے متعلق جاننے کی للک پیدا ہوئی، جس کے لیے ادب سے بہتر کوئی دوسرا راستہ انھیں نہ سوجھا۔‘

مختار صدیقی نے آندرے موروا کی کتاب کا ’’جینے کا قرینہ ‘‘کے نام سے ترجمہ بھی کیا، جس میں ، محبت، شادی ، گرہست ، دوستی ، غوروفکر ، کام ، قیادت ، بڑھاپا، اور مسرت کے بارے میں بڑی پتے کی باتیں ہیں ۔ یہ کتاب 1955 میں مکتبہ جدید لاہور نے شائع کی۔ ترجمے میں مختار صدیقی کی زبان وبیان پرقدرت کا پرتو تو نظر آتا ہی ہے، ان کے مطالعہ کی وسعت ان حواشی سے ظاہر ہوتی ہے، جو انھوں نے اس کتاب میں دیے ہیں۔

مختارصدیقی نے مذکورہ دو کتابوں کے سوا اور بھی کئی تحریروں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ہم ‘‘جینے کا قرینہ ‘‘ میں شامل برٹرنڈ ر رسل کا ایک بیان نقل کر رہے ہیں ، جس میں وہ ہمیں اس مسرت کے بارے میں بتاتا ہے، جواسے اپنے مالی سے مل کرحاصل ہوتی ۔

برٹرنڈ ر سل نے لکھا ہے ۔

’’میں جب اپنے دوستوں کی کتابیں پڑھتا ہوں یا ان کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں ، مسرت ناممکن ہے ۔ اس کے برعکس ، میں کبھی اپنے مالی سے بات کرتا ہوں تو میرا خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ یہ مالی اپنے پھلوں پھولوں اور سبزیوں ترکاریوں کا خیال رکھتا ہے ۔ اسے اپنا کام آتا ہے ،اسے اپنے باغ کے ذرے ذرے سے واقفیت ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کی فصل اب کے عمدہ ہوگی ۔ اور اسے اس پر فخر بھی ہے !۔۔۔یہ مسرت کی ایک قسم ہے ۔ وہ مسرت جو ہر فنکار ، ہر تخلیقی کام کرنے والے کو حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘

رسل کے مالی کا ذکر پڑھا تو یاد آیا کہ بابائے اردومولوی عبد الحق نے بھی تو ایک مالی کا ذہن سے کبھی نہ بسرنے والا خاکہ لکھ رکھا ہے ۔’’چندہم عصر‘‘ میں شامل اس لازوال خاکے ’’نام دیو، مالی ‘‘ سے یہ اقتباس:

’’۔۔۔وہ اپنے کام میں مگن رہتا ۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی ،وہ اپنے پودوں اور پیڑوں ہی کو اپنی اولاد سمجھتا تھا اور اولاد کی طرح ان کی پرورش اور نگہداشت کرتا ۔ ان کو سرسبز اور شاداب دیکھ کر ایسا ہی خوش ہوتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔ وہ ایک ایک پودے کے پاس بیٹھتا ، ان کو پیار کرتا ، جھک جھک کے دیکھتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا ان سے چپکے چپکے باتیں کررہا ہے ۔ جیسے جیسے وہ بڑھتے ، پھولتے پھلتے ، اس کا دل بھی بڑھتا اور پھولتا پھلتا تھا ، ان کو توانا اور ٹانٹا دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ کبھی کسی پودے میں اتفاق سے کیڑا لگ جاتا یا کوئی اور روگ پیدا ہوجاتا تو اسے بڑا فکر ہوتا ۔ بازار سے دوائیں لاتا ۔ باغ کے داروغہ یا مجھ سے کہہ کر منگاتا ۔ دن بھر اسی میں لگا رہتا ۔اور اس پودے کی ایسی سیوا کرتا جیسے کوئی ہمدرد اور نیک دل ڈاکٹر اپنے عزیز بیمار کی کرتا ہے۔ ہزار جتن کرتا اور اسے بچا لیتا ۔ اور جب تک وہ تندرست نہ ہو جاتا اسے چین نہ آتا ۔ اس کے لگائے ہوئے پودے ہمیشہ پروان چڑھے اور کبھی پیڑ ضائع نہ ہوا ۔‘‘مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ نام دیو مالی اپنے کام کے سلسلے میں یا دوسروں کے کام آنے میں جتنے بھی جتن کرلیتا ، اسے کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ وہ نیک کام کررہا ہے ، اور ان کے بقول ’’نیکی اس وقت تک نیکی ہے جب تک آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کوئی نیک کام کررہا ہے ، جہاں اس نے یہ سمجھنا شروع کیا ، نیکی نیکی نہیں رہتی۔ ‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے