امریکا اور موقع

امریکہ کے متعلق عموماً‌ مادی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ It is a land of opportunity. (یہ مواقع کی سرزمین ہے)۔ میرا تاثر یہ ہے کہ یہ بات مذہبی، تہذیبی اور سیاسی حوالے سے بھی درست ہے۔

امریکی معاشرہ، مختلف تاریخی عوامل کی وجہ سے، ابھی ایک تشکیل پذیر معاشرہ ہے اور یورپی معاشروں کے مقابلے میں اس کے کندھوں پر تعصبات اور طے شدہ مسلمات کا وہ بوجھ کافی کم ہے جو تاریخ میں طویل اور پیچیدہ سفر کرنے سے پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ اس میں تبدیلی کی قبولیت اور نئے سانچوں میں ڈھلنے کے لیے درکار لچک بھی موجود ہے۔ مادی وسائل کی بہتات، ٹیکنالوجی کی ترقی اور انسانی، نسلی اور مذہبی تنوع اس معاشرے کے پوٹینشل کو غیر معمولی طور پر بڑھا دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ تصور معیشت نے بہت تیزی سے اس معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے، لیکن ابھی تک فکری سطح پر یہاں یہ احساس موجود ہے کہ ہماری تہذیب Judeo-Christian Values کی حامل تہذیب ہے۔ سیاسی نظام کی جو بنیادیں دو ڈھائی سو سال قبل ان کے بابصیرت راہ نماوں نے طے کی تھیں، وہ آج بھی یہاں کے سیاسی استحکام کی ضامن ہیں۔

سوشلزم کی ناکامی کے بعد یہاں بعض فکری طبقات میں یہ غرہ پیدا ہوا ہے کہ موجودہ تہذیب نے وہ اقداری بنیادیں تلاش کر لی ہیں جن پر ’’اختتام تاریخ’’ کا سائن بورڈ لگایا جا سکتا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے مظاہر استحصال یہاں اتنے نمایاں اور روز مرہ بنیادوں پر اپنی طرف متوجہ کرنے والے ہیں کہ اس فکری arrogance کو عام معاشرتی احساس کا حصہ بنانا ناممکن ہے۔

میرے طالب علمانہ نقطہ نظر سے امریکی معاشرہ، مغربی تہذیب کے اندر سے تفکیر نو کا احساس بیدار کرنے اور اس تہذیب کی سلبیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں نے دور زوال میں بھی بعض غیر معمولی ذہانتیں پیدا کی ہیں، لیکن ان کی ساری توجہ حریفانہ کشمکش نے حاصل کیے رکھی ہے۔ کچھ نابغے اگر اس زاویے سے بھی اس سارے معاملے کو دیکھ پائیں جس کی طرف ایک مبتدی طالب علم کی توجہ جاتی ہے تو شاید ’’کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے’’۔

لیکن فی الحال یہ محض ایک نظری امکان یا ایک خواہش ہے۔ قدرت نے تکوینی سطح پر کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے، اسے کون جان سکتا ہے۔ وعندہ مفاتیح الغیب لا یعلمھا الا ھو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے