"کمیشن مافیا "

چند سال پہلے کی بات ہے راولپنڈی میں اپنے ایک جاننے والے کے گودام میں ملاقات کی غرض سے گیا ۔ تعمیراتی لکڑی کی کئی اقسام اس گودام میں موجود تھیں اسی دوران ایک معمر شخص ایک خاتون کیساتھ گودام میں آئے ، مطلوبہ لکڑی کا سودا کیا خاتون نے پیمنٹ کی اور مال گاڑی میں لوڈ کروا کر چل دیئے ہم دوبارہ گپ شپ میں مشغول ہو گئے تھوڑی ہی دیر میں وہ بزرگ واپس آئے اور میرے اس جاننے والے سے کچھ پیسے لئے اور چل دیئے ، وہ جونہی باہر نکلے میں نے سوالیہ نظروں سے گودام والے کو دیکھا ، تو وہ سمجھ گیا کہنے لگا آپ نے تو تصویر کا ایک رخ دیکھا ہے ، وہ یہ کہ یہ بڈھا شخص مجھ سے کمیشن لے گیا اور یہ بھی کہ میں ٹھیک آدمی نہیں ہوں، بزنس اصولوں سے نہیں کر رہا۔

یہ الگ بحث ہے کہ یہاں ٹرینڈ ہی ایسا چل پڑا ہے۔ اس کے بغیر ہم لوگ شام کو خالی ہاتھ گھر جاتے ہیں . اس کے بعد اسں نے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا تو مجھے ایک لمحہ کیلئے زور کا جھٹکا لگا کہنے لگا شاید آپ یقین نہ کریں کہ اس بابے کے ساتھ جو خاتون لکڑی خرید کر لے گئی ہے وہ اس بابے کی حقیقی بیٹی ہے اور بابے نے اپنی بیٹی کے گھر کی تعمیرات کیلئے استعمال ہونے والی لکڑی کی خریداری پہ بھی کمیشن معاف نہیں کی ۔ (دوکاندار نے یہ رقم کونسی اپنی جیب سے دی ہو گی لازماََ ریٹ اوپر نیچے کر کہ اسی خاتون کی جیب سے نکال کر اس کے ابے کو دی ہو گی ) میں نے اس وقت سوچا تھا کہ ہمارے ہاں کا دیہاتی ماحول کس قدر خوبصورت اور شفاف ہے۔ لیکن دیہاتی ماحول کی حقیقت بھی جلد مجھ پہ آشکار ہو گئی….

گزشتہ سال پاکستان قیام کے دوران گھر کا چھوٹا موٹا کام کروانے کی ضرورت پڑی ، ایک کاریگر جسے ہم گھر کا فرد تصور کرتے ہیں ۔ اسے کال کر کہ بولایا کہ کس کس سامان کی ضرورت پیش آئے گی۔ وہ کاریگر صاحب آ گئے ، گھر والوں نے خوب آؤ بھگت کی ، بچوں نے ماموں ماموں کہہ کر پکارا اور صاحب نے کاغذ پنسل نکال کرتفصیلات درج کی اور ساتھ یہ کہا کہ جب سامان لینا ہوا تو مجھے ضرور بلائیے گا، دوکاندار گڑ بڑ کر لیتے ہیں۔ ریٹ بھی زیادہ لگا لیتے ہیں اور صحیح مٹیریل بھی نہیں دیتے !

میں نے کہا کہ میں کل انشاء اللہ دھیرکوٹ شہر جاؤں گا اور سامان لے آؤں گا اس نے اٹھتے اٹھتے دوبارہ تاکید کی کہ دیکھئے مجھے کال ضرور کرنا ۔۔۔۔ دوسرے دن میری کال پہ وہ صاحب مجھ سے پہلے دھیرکوٹ بازار میں میرا انتظار کر رہے تھے ۔ ہم نے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی اور سامان خریدنے کیلئے میں اپنے ایک جان پہچان والے دوکاندار کی طرف جانے لگا تو اس نے تقریباََ زبردستی ہی مجھے ایک دوسرے دوکاندار کے پاس لے گیا ۔۔۔۔ میں نے اسے بڑا سمجھایا کہ وہ مقامی ہے اور جان پہچان والا ہے ۔۔۔ جواب میں اس نے کہا کہ نہیں یہ بہت مہنگا ہے فلاں دوکاندار سے لینگے اس کے ریٹ سب سے مناسب ہیں اور کوالٹی بھی بہت اچھی ہے ۔

قصہ مختصر ہم اس دوکاندار کے پاس پہنچے سامان خریدا ، ادائیگی کی اور دوبارہ ہوٹل میں آ گئے ۔ کھانا اکٹھے کھایا اور اس نے سلام دعا کر کہ کہا کہ میں دو دن بعد کام پہ آ جاؤں گا، جونہی وہ ہوٹل سے نکلا میں نے ہوٹل کے ہی ایک لڑکے کو یہ کہہ کر اس کے پیچھے بھیج دیا کہ دیکھ وہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے ؟ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا واپس آ گیا اور اس نے کہا کہ وہ صاحب ہوٹل سے نکل کر فلاں دوکان میں گئے اور وہاں سے کچھ پیسے لیے اور پھر اپنا موٹر سائیکل سٹارٹ کر کہ بازار سے چلے گئے ! ( یعنی وہ اسی دوکان پہ واپس گیا اور اپنا کمیشن وصول کیا) لیکن میرا شک یقین میں اس وقت بدلا جب میں نے دھیرکوٹ شہر میں ایک سابقہ کالج فیلو، جو الیکٹریکل و الیکٹرونکس کا بزنس کرتا تھا کو کہا کہ آپ کا بجلی کا سامان تو خوب سیل ہوتا ہو گا فلاں فلاں صاحب (میں نے مقامی اور جان پہچان کے چند کاریگروں کا نام لیا) تو آپ سے ہی سامان خریداری کرواتے ہوں گے ؟

اس نے واپسی جواب دیا اور مجھے حیران کر گیا کہنے لگا : وہ لوگ میرے پاس سے خریداری کریں گے تو انہیں کیا فائدہ ہو گا ؟ باہر کے دوکاندار انہیں بآسانی کمیشن دے دیتے ہیں اب یہ کام ہم سے ہوتا نہیں اس لئے وہ گاہک حضرات کو ان ہی کے پاس لے جاتے ہیں اور ساتھ میں کوالٹی کی قسمیں کھاتے ہیں.. میں نے اس سے پوچھا اس کا حل آخر کیا ہے ؟ کہنے لگا اگر آپ ان کی بتائی ہوئی شاپ سے خریداری کر کے نہیں لے جائیں گے تو کام کے دوران بہت تنگ کرینگے ۔ اس لئے بھی لوگ مجبوراََ انہی کہ کہنے پہ خریداری کرتے ہیں اور دوسرا مٹیریل ایک ہی کمپنی کا تین تین کوالٹیز میں مارکیٹ میں دستیاب ہے ایک عام آدمی کوٹیشن لیکر کبھی بھی درست خریداری نہیں کر سکتا ۔

قارئین ! یہ ایشو صرف کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں بلکہ جدھر نظر دوڑایں آپ کو ایسے ہی حالات دکھائی دینگے.. ڈاکٹر معائنہ کے بعد مریض کو تاکید کرے گا کہ فلاں کمپنی کی دوا ہی خریدنا ہے اور یہ کہ مجھے دوائیں دکھا کرجانا ۔۔۔۔ اگر کچھ ٹیسٹ وغیرہ کروانے ہوں تو جس لیب کا ایڈریس دے گا وہاں اس کا کمیشن فکسڈ ہو گا … پرائیویٹ تعلیمی ادارے یونیفارم ، بکس اور کاپی پنسل جن شاپس کو آتھرائز کرتے ہیں وہاں سے باضابطہ پرسنٹیج انہیں مل رہی ہوتی ہے… کسی ادارے میں ایڈمیشن ہو یا کسی جاب کا حصول کہیں بھی کمیشن کے بغیر کچھ ممکن نہیں رہا… حد ہو چلی جب کئی محراب و ممبر کے جانشینوں اور اسلامی جماعتوں کے نام نہاد کارندوں نے اپنے چند ہزار روپے کمیشن کی خاطر "مضاربہ” کے نام پہ غریبوں کے کروڑوں روپے تباہ کر دیئے ! ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کرپشن کا راستہ روکا جائے اور قدم قدم پہ ایسے کرداروں کی حوصلہ شکنی کی جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے