جوتےمارنے والوں کی تعداد بڑھا دو

پاکستان کے باسی بھی کیا خوب قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ کبھی مذہبی و لسانی تعصب کی بنیاد پر اور کبھی بنتی گرتی حکومتوں کے لئے بطور سہولت کار استعمال ہونا جیسے ان لوگوں کی گھٹی میں لکھ دیا گیا ہو ۔۔۔!!!ملکی سُورماؤں کے مفادات کی خاطران لوگوں کو آپس میں دست وگریباں کرا دیاجاتا ہے تو کبھی منصفی،آمری اور حکومتی چکی کے پاٹوں میں پیسا جاتا ہے۔۔!! یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین دہاؤں سے مذہبی ،سیاسی، لسانی، منصفی ، آمری اور حکومتی رحم و کرم کی بدولت شہرمعاشی و معاشرتی دہشت گردی کا شکار ہے۔۔!!

ملک کی تازہ ترین صورتحال میں یہاں کے باسی احساس کمتری و مایوسی کی آخری نہج پرکھڑے دکھائی دیتے ہیں۔صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی،بلا تعطل بجلی کی ترسیل، معیاری خورد و نوش اشیااور سہل و سستا انصاف جیسی بنیادوں سہولیات ‘ جدید دور کا ایٹمی ملک ہونے کے باوجود شہریوں سے کوسوں دور ہیں جبکہ حکمرانوں سے لیکرحزب اختلاف تک عوامی کی اس زبوں حالی پراپناٹوپی ڈرامہ نورا کُشتی تک ہی محدود رکھتے ہیں۔۔!! تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ حکومتی اسکولزغیر معیاری ، خستہ حال عمارتیں،اساتذہ کی کمی اور کرپشن کا شکار ہیں جبکہ درجنوں اسکولز اور اساتذہ محض کاغذوں میں دستیاب ہیں۔۔!!دوسری جانب پرائیویٹ اسکولز اگر چہ معیاری اور کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر انکی بھاری بھر کم فیسیں ایک عام آدمی کی دسترس سے یکسرباہر ہیں۔۔!! عصری ومذہبی تعلیم کا معیار اس درجہ ہے کہ مدارس میں دین جبکہ اسکولز و کالجز میں ڈگریاں اوراقدار نیلام ہوتی ہیں۔۔!!

عدم برداشت کی صورتحال اس قدر نمو پا چُکی ہے کہ کالجوں ویونیورسٹیوں کے زیر تعلیم طلبا ’’مسٹر‘‘ جبکہ مدارس کے زیر تعلیم طلبا ’’مولوی یا مولانا‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اس صورتحال میں مسٹرمولوی سے، مولوی مسٹر سے اور ایک سیاست دان کا پیروکار دوسرے سیاستدان کے پیروکار سے فاصلہ رکھنا پسند کرتا ہے‘ یوں دونوں سوچ کے حامل افراد کے درمیان یہ فاصلے طویل سے طویل ہوتے جاتے ہیں،،۔۔ اور آج کے دور میں تو یہ فرق اس قدربہت واضع ہوگیا ہے کہ اب شادی بیاہ جیسے معاملات بھی اسی تناظر میں پرکھے جاتے ہیں!!

یہاں کے اسپتالوں کا یہ حال ہے کہ انکی تعداد شہری آبادی کے تناسب سے نہ ہونے کے برابر ہیں،، جو اسپتال ہیں بھی تو ان میں خستہ حالی اور ناقص انتظامات اور طبی سہولیات کا فقدان ہے اور انکی دیواروں پر رنگ روغن کی بجائے گٹکے، پان کے نشانات نمایاں ہیں، جبکہ گندے واش رومز اور گٹروں سے رستا پانی جانوروں کے اسپتال سے بھی بدترمنظر پیش کرتے ہیں،یہاں ڈاکٹروں کی موجودگی کا آغاز صبح کی بجائے دوپہر سے ہوتا ہے ، پھراو پی دی میں صبح سے انتظار میں بیٹھے مریض ڈاکٹر کے غضب و غصے کا نشانہ بنتے ہیں ۔۔!! گو کہ اس ملک کے شہریوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مذکورہ کیفیات کا عادی بنا کر ان پر با آسانی حکمرانی کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور پھر یہاں کے لوگ صبر شکر کرتے جوتے کھانے والی اُس رعایا کی ماند ہو جاتے ہیں جو رزانہ کی بنیاد پر جوتے مارنے والے بادشاہ سے صرف یہی التجا کر تے ہیں کہ،، بادشاہ سلامت۔۔!! ’’ جوتے کھاتے کھاتے بہت دیر ہو جاتی ہے لہذا عرض ہے کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا ئی جائے تاکہ اس عزت افزائی سے فارغ ہو کر جلد از جلد اپنے کام دھندوں پرجائیں۔۔!! نتجتا ان ستم دیدہ لوگوں کی وطن پرستی کا عالم دیکھئے کہ مذکورہ استحصال اور ستم ظریفی کے بعد ان کے سینے ’دل ہے پھر بھی پاکستانی‘ کے جذبے سے سر شار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے