بیگانی ڈگڈگیوں پرمحورقص کشمیری قیادت

تصور کیجئے کہ چینی قوم کے پاس ماوزے تنگ ،برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے پاس قائد اعظم ، ہندووں کے پاس گاندھی اور افریقہ کے سیاہ فاموں کے پاس نیلسن منڈیلا نہ ہوتے تو ان کی قوموں کا آج کیا حشر ہوتا تو جواب ملتا ہے کہ ان کی قوموں کا وہ حشر ہوتا جو اس وقت کشمیری قوم کا ہے ۔

69 سالہ طویل جدو جہد اور بے مثال قربانیوں کے باوجود اگر یہ قوم ابھی تک اتنے مظالم کا شکار ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ایک اچھے راہنما کی کمی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا جلنا اور جل کر بار بار بجھ جانا ہی کشمیریوں کا مقدر ہے ؟

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک ایک بار پھر زوروں پر ہے ۔ 47 دن سے وادی میں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن وادی میں مزاحمت کسی طرح کم نہیں ہو رہی ۔ انڈیا اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے طاقت کا بے تحاشا استعمال کر رہا ہے اور جتنا تشدد بڑھتا جاتا ہے لوگوں کے دلوں سے خوف اتنا ہی ختم ہوتا جا رہا ہے ۔

اب یہ سوال بار بارذہن میں اٹھتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا انڈیا عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئے گا یا وادی ایک بار پھر جل کر بجھ جائے گی؟ کیا موجودہ قیادت کے پاس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی موثر لائحہ عمل ہے جو اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچا سکے۔

کسی بھی تحریک کو منطقی انجام کی طرف اکیلا لیڈر لے کر جا سکتا ہے نہ لیڈر کے بغیر قوم۔ اس کے لئے عوامی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک سوجھ بوجھ والے مخلص اور بہادر رہنما کا ہونا ضروری ہے اوراس سے بھی زیادہ ضروری ایک منزل کا تعین ہے ۔

بدقسمتی سے کشمیر کی قیادت نہ صرف کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے بلکہ ان کی منزل بھی ایک نہیں ہے۔ ہر دھڑے کے اپنے مقاصد، اپنا ایجنڈا ، اپنا طریقہ کار ہے اور ان کے اس اختلاف نے مسئلہ کشمیر کو الجھا ہوا ریشم بنا دیا ہے جس کا ایک دھاگہ سلجھانے سے دوسرے مزید الجھ جاتے ہیں۔

پہلے تو سمجھ نہیں آتا کہ اصل قیادت کونسی ہے؟ سیاسی قیادت، حریت قیادت یا عسکری قیادت ؟
حکومت میں بیٹھے اور حریت کے سیاسی ونگ کی پالیسی میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں سیاسی عمل سے مسئلے کے حل کی بات کرتے ہیں تاہم دوسری طرف حریت کے عسکری ونگ مسئلہ کا حل بھارت کے خلاف عسکری جنگ کو گردانتے ہیں۔

سیاسی قیادت کو اگر قیادت خیال کیا جائے تو بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اس وقت کی حکومت کسی بھی طرح رہنما حکومت نہیں ہے ۔اس کے انتخاب کے وقت ہی عوام کی رائے یہ تھی کہ ان کو صرف انتظامی معاملات کی دیکھ ریکھ کے لئے منتخب کیا جا رہا ہے ان کا مینڈیٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نہیں ہے اور پی ڈی پی کو کسی حد تک عوام نواز جماعت سمجھا جا رہا تھا لیکن حکومت سازی کے عمل میں جب اس جماعت نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تب سے عوامی رائے اس کے خلاف ہونا شروع ہو گئی تھی اور موجودہ تحریک میں اس جماعت کے منفی کردار کے بعد اس کی غیر مقبولیت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔

آزاد کشمیرہفتہ عشرہ قبل ہی حکومت سازی کے عمل سے گذرا ہے تاہم انتخابی مہم اور حکومت سازی کے سارے عمل کے دوران کسی بھی رہنما نے معمول کے بیانات کے سوا مسئلہ کشمیر سے کسی دلی وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور اگر اس وقت ان کو رہنمائی کرنے کو کہا جائے تو وہ خود پریشان ہو جائیں گے۔اس وقت غازئی ملت اور مجاہد اول والی کہانیاں دیومالائی قصے لگتے ہیں ۔

پھر بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کے آپس میں اختلافات اگرچہ گذشتہ کچھ عرصے سے کم نظر آ رہے ہیں لیکن کوئی مشترکہ لائحہ عمل ان کے پاس بھی نہیں ہے اور پھر قید و نظربندیاں اس پر مستزاد۔

عسکری قیادت میں سید صلاح الدین بھی صرف سڑکوں پر ’گو انڈیا گو بیک‘ ہی لکھتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے ۔ بدیر آید درست آید۔ لیکن کشمیر کی تحریک کو چاہے وہ سیاسی ہو یا عسکری اس کو پاکستان کی کالعدم تنظیموں کے سربراہ بے پناہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو لوگ کشمیریوں کے حق میں ایک دن آواز بلند کر رہے ہوتے ہیں حافظ سعید کے بیان کے بعد وہی لوگ کشمیریوں کے خلاف بولتے ہیں یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے کہ جہاں پاکستان کی عسکری تنظیمیں مداخلت کرتی ہیں وہاں عالمی رائے عامہ ہمارے خلاف ہو جاتی ہے اور ہمارا پہلے سے اکھڑی سانسیں لیتا کیس کمزور پڑ جاتا ہے۔

اب اہم نکتہ یہ کہ منقسم ریاست کے تینوں حصوں میں بٹی قیادت کی کوئی مشترکہ منزل ہے نہ کوئی اپنا سیاسی ایجنڈا۔ وہ الحاق پاکستان و ہندوستان اور خودمختاری کے نعروں میں بٹے ہوئے ہیں ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کی مین اسٹریم پالیٹیکس کو ہندوستان دل و جان سے قبول ہے اور دلی کے اشاروں پر رقص کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے ایسے میں وہ عوام جن کے وہ حکمران کہلاتے ہیں وہ سینکڑوں میں مریں یا ہزاروں میں ان کو پرواہ نہیں ہوتی۔

آزادکشمیر کے حکمران اپنی قبیلائی سیاست میں مگن رہتے ہیں جب مسئلہ کشمیر کی بات آئے تو بھی ان کے منہ میں اپنی زبان نہیں ہوتی جو وہ چاہتے ہیں وہ کہہ نہیں سکتے اور جو کہتے ہیں وہ کر نہیں سکتے سب سے بڑھ کر جو وہ کرتے ہیں اس کا ان کو خود ادراک نہیں ہوتا کہ ہوا کیسے اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا اس طرح کی قیادت کسی محکوم قوم کو آزادی دلوا سکتی ہے ؟

حریت والوں کا حال ان سے بھی برا ہے ان میں سے کچھ الحاق پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں اور کچھ خودمختا ر کا نعرہ لگا کر خود کو عوامی نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقی عوامی نمائندگی کے اصل معیار پر کوئی پور انہیں اتر سکا۔

حریت کی آزادکشمیر شاخ (جو سال میں ایک مرتبہ آزاد کشمیر تشریف لاتی ہے )کی دلچسپی کشمیر سے زیادہ اپنے اثاثے بڑھانے میں ہے۔در حقیقت حریت کی یہی شاخ دونوں خطوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اس کا کردار سب سے زیادہ مایوس کن اور تاجرانہ ہے ۔

شاید ہی دنیا کی کسی قوم کی قیادت اس قدر تقسیم در تقسیم ہو اس پر مستزاد اقتدار اور اپنے مفادات کی لالچ۔ یہ وہ قدر ہے جو قیادت کی ان ساری قسموں میں مشترک ہے ان میں سے کسی کو بھی مفادات کا ’’ لالی پاپ‘‘ دے کر کسی بھی وقت چپ کروایا جا سکتا ہے۔

مضمون کی ابتدا میں جن لوگوں کا تذکرہ ہے وہ اس لئے کامیاب تھے کہ ان کی منزل متعین تھی اور پھر اس منزل کے حصول کی کوششوں میں ان کو عوامی حمایت حاصل تھی ۔ الگ وطن کی جانب اشارہ اگر علامہ اقبال نے کیا تھا تو قائداعظم نے اپنے ساتھیوں سمیت اس کے حصول کی کوشش کی ، گاندھی نے اگر انگریز کے تسلط سے آزادی کا خواب دیکھا تو نہرو اور ان کے باقی ساتھی بھی اسی آزادی کے لئے کوششیں کرتے رہے ۔

کشمیری قوم کے ساتھ تقسیم برصغیر کے وقت بھی ایسا ہی ہوا کہ مہاراجہ کی منزل کچھ تھی ، شیخ عبداللہ کی الگ اور چوہدری غلام عباس کی منزل کوئی اور تھی ۔جس نے کشمیر قوم کو غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا اور اس سے ہم آج تک چھٹکارا نہیں پا سکے لیکن اب وقت ہے کہ سوچنا ہوگا کہ کیا کشمیر اسی طرح بار بار جل کر بجھتا رہے گا اور کیا ہم اسی طرح بیگانی ڈگڈگیوں پر ناچتے رہیں گے؟

موجودہ تحریک سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ عوام ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اور ان میں کھڑے ہونے کی ہمت بھی ہے صرف ایک رہنما کی ضرورت ہے ۔ قائد وہ ہوتا ہے جو راستہ جانتا ہے ،جس کی منزل کا واضح تعین ہو اور اس پر چلنے کی ہمت ہو اور عوام کا اعتماد حاصل ہو لیکن بد قسمتی کہ ہمارا کوئی قائد بھی اس طرح کا نہیں ہے اور ایک انگریزی مقولہ ہے لگتا ہے۔
If you can’t change the people, change the people

شائد اب لوگوں کو بدلنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ موجودہ لوگ بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے