تصویر کا دوسرا رخ

شہر اقتدار کے سرکاری اسپتالوں سے بہت سے گلے ہیں۔ مریض گلہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر رویہ اچھا نہیں رکھتے مناسب چیک اپ نہیں کیا جاتا۔ یہ سب شکایات اپنے طور پر سچ بھی ہیں لیکن پمز میں بنائے گئے برن یونٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ جہاں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز عوام کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے نظر آتے ہیں وہاں ہی برن یونٹ ایک الگ ہی منظر پیش کر رہا ہے۔ بارہ بیڈز پر مشتمل یہ برن یونٹ جہاں جلنے والے علاج کی بہترین سہولیات لے رہے ہیں یہ ہالینڈ کے برن یونٹ کی طرز پر بنایا گیا یے۔ دو ہزار سات میں مشرف دور میں بنایا گیا یہ برن یونٹ اپنی بہترین سروس دے رہا ہے۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر طارق اقبال ہیں جو صبح آٹھ بجے سے اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دیگر اسٹاف بھی کسی قسم کی کام چوری اور علاج میں کوتاہی کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ پروفیسر صاحب صرف دفتر میں بیٹھنے، فائلیں سائن کرنے کے علاوہ کسی بھی وقت وزٹ کرتے ہیں مریضوں اور ان کے تیمارداروں سے رائے لیتے رہتے ہیں۔ بغیر کسی فیس کے یہاں جلے ہوئے مریضوں کو فوری طور پر ایڈمٹ کر لیا جاتا ہے ہاں بالحال ابھی جگہ کی کمی ہے ایک وقت میں بارہ مریض داخل ہو سکتے ہیں۔ ادویات، لوشنز، جلنے والوں کی مرہم وغیرہ سب کچھ فری ہے۔ ہر مریض کے ساتھ ایک تیمادار بھی رہ سکتا ہے۔ صبح ناشتے میں مریض اور مریض کے ساتھ رہنے والے ایک تیماردار کو ناشتے میں ابلے انڈے اور سینڈوچ دئیے جاتے ہیں دن اور رات میں ایک ٹائم مٹن اور ایک ٹائم چکن دیا جاتا یے۔

عام طور پر ہسپتال اور خاص کر سرکاری اسپتال میں صحافیوں کو جا کر لوگوں سے بات چیت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ مگر اس سلسلے میں برن یونٹ کہ ڈاکٹر عاشر جو برن یونٹ کے سپوکس مین بھی ہیں انہوں نے ہمیں نہ صرف برن وارڈ کا تفصیلی وزٹ کروایا بلکہ پورا موقع بھی دیا کہ جو مریض اور اس کا فیملی ممبر بات کرنا چاہے اس سے صورتحال بھی پوچھ سکیں۔

برن وارڈز کے وزٹ کے وقت وہاں موجود مریضوں اور ان کے احباب سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹرز کے علاوہ اپنی تسلی کے لیے میں نے مریضوں سے بات چیت کی ہسپتال کی انتظامیہ کے تعاون اور علاج کی سہولیات کے حوالے سے سبھی بےحد مطمئن دیکھے۔ سب سے پہلے ملاقات ایک دس سے بارہ سالہ بچے سے ہوئی۔ پتنگ پکڑنے کی کوشش میں گھر کی چھت سے گزرتی بجلی کی تاروں سے کرنٹ لگنے کے باعث والدین کا یہ اکلوتا بیٹا شدید متاثر ہوا تھا اس کے جسم کا بائیں حصہ بری طرح جلھس گیا تھا تاہم ایک بازو سے محروم ہونے کے باوجود بچہ اور ماں دونوں خدا کے حضور شکرگزار تھے کہ بچے کی جان بچ گئی ہے۔

اسی طرح اگلے روم میں ایک بچی لائی گئی تھی جو آج سکول سے واپسی پر گھر گئی کھیلتے کھیلتے گھر کی چھت پر گئی اور ماں کے بقول گھر کی چھت کے ساتھ ٹرانسفارمر تھا ایک دھماکے کی آواز آئی اور بچی شدید جلی ہوئی حالت میں یہاں منتقل ہوئی ماں نے بتایا یہاں لاتے ہی بغیر کسی تعارف کے کسی ریفرنس کے فوری طور پر ڈاکٹرز نے بچی کو ایڈمٹ کرتے ہوئے علاج کی بہترین سہولیات دیں۔

برن یونٹ میں بارہ ایمرجنسی رومز بنائے گئے ہیں جہاں ہر روم میں وینٹی لیٹر کی سہولت ہے۔ کم جلے اور قدرے صحت یاب مریضوں کے لیے چار بیڈز لگائے گئے ہیں جب کہ جل جانے والے چھوٹے ننھے منے بچوں کے لیے بارہ کاٹس موجود ہیں۔ کچھ ایسے مریض بھی دیکھے جو جلنے اور علاج کے بعد اب مختلف اسکن سرجریز کے لیے گھر سے آئے ہوئے تھے اور کافی بہتر محسوس کر رہے تھے۔

بہت عرصے سے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر جو مایوسی ہوتی تھی وہ برن یونٹ جا کر کافی حد تک کم ہوئی۔ اگر اچھے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رکھے جائیں جو اپنے پیشے سے مخلص ہو اور ٹیم ورک سے وسائل کا بخوبی استعمال کرنا جانتے ہوں تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا ہر سرکاری اسپتال برن یونٹ کی طرح اپنا اچھا رزلٹ دے گا کیونکہ اس بات میں شک نہیں کہ وسائل کی کمی نہیں ہے سرکاری اسپتالوں میں کرپشن پر قابو پا لیا جائے اور اقرباپرورری کو فروغ دینے کےبجائے قابل اور باصلاحیت لوگوں کو موقع ملے تو ملک میں تبدیلی بلکہ انقلاب آ سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے