رشتہ دارانہ صحافت اور بادشاہ صحافی

صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے جتنا سوچتا ہوں اتنے خیالات ذہن کے نہاں خانوں سے نکلتے ہیں اور ہر خیال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مجھ پر قلم اٹھایا جائے کیونکہ صحافی بھائیوں نے مجھ پر لکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ، اب صحافی ڈرتے ہیں یہ تو میں مانتا نہیں مگر شکنجوں میں کسے ہوئے ہیں اس بات سے انکار ممکن نہیں خیالات کو جھٹکتا ہوں مگر کیا کروں لکھنا بھی مجبوری ہے صحافیوں پر لکھنا شروع کیا تو یار دوستوں نے برا منایا اور چندا یک نے تعریفی کلمات سے نوازا جس سے ڈھیروں خون بڑھ گیا شاعر ، ادیب اور صحافی کو اور کیا چاہیئے دوبو ل تعریف کردیں وہ پورا کا پورا آپ کا ہو جائے گا یا پھر صحافی کی دعوت کردیں ، ہم نے جب صحافیوں کی اقسام کے حوالے سے لکھا تو کچھ دوستوں نے صحافیوں کی مزید اقسام کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ان کے مطابق صحافیوں کی ایک قسم انتخاباتی صحافی بھی ہوتی ہے،

یہ قسم عموماً پریس کلب اور یونین کے انتخابات کے دنوں میں دکھائی دیتی ہے، پورا سال آپ سے یہ صحافی سیدھے منہ بات بھی نہیں کرینگے،ہاتھ بھی ایسے ملائیں گے جیسے آپ کی سات پشتوں پر احسان کر رہے ہوں اور الیکشن کے دنوں میں یوں گلے ملتے ہیں گویاعید مل رہے ہوں۔پھرالیکشن کے فوری بعد سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی طرح گدھے کے سر سے سینگ کے جیسے غائب ہو جاتے ہیں ،اگلے انتخابات تک…یہ ٹھیکہ دار صحافی بھی کہلاتے ہیں،عموماً پریس کلب اور یونین کے کلیدی عہدوں کا ٹھیکہ ان کے پاس ہی ہوتا ہے یا تو خود ان عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں یا پھر اپنے من پسند بندوں کو ٹھیکہ دیا ہوتا ہے عموما ایسے صحافی غیر ملکی اور ملکی دوروں پر ہوتے ہیں ، دفتر میں یہ کم ہی پائے جاتے ہیں ان سے پوچھیں پاکستان کا کون سا حصہ ان کی آنکھوں نے نہیں دیکھا یہ حیرت سے منہ دیکھیں گے اور کہیں گے کوئی بھی ان گناہگار انکھوں سے بچا نہیں ہے مگر ان علاقوں کو بار بار جانے کو جہ کرتا ہے کیونکہ چھوٹتی ہی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ۔

ایک دوسری قسم کے بارے میں ہم ذکر کرنا بھول گئے تھے جن کو صحافت کے شعبے میں دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں مارکیٹنگ کے شعبے میں ہونا چاہیے یا پھر انہیں کہیں پر پبلک ریلیشن آفیسر کی ڈیوٹی انجام دینی چاہیئے یہ ان لوگوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جو مخصوص سیاسی پارٹیوں یا دفاتر کے پی آر او بن جاتے ہیں اور ان کے اچھائیاں ہی بیان کرتے ہیں بھئی بحیثیت صحافی یہ ہماری فرض ہے کہ حقیقت خواہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو اسے سامنے لایا جائے کوئی کتنا ہی نزدیک ہو یا پھر اس سے کتنا ہی فائدہ کیو ں نہ ہو بغیر کسی لگی پٹی کے اسے بیان کرنا چاہئیے لیکن اس شعبے میں رہتے ہوئے کچھ ایسے لوگ صحافی اس لئے نہیں کہہ رہا کہ یہ لوگ صحافت کے منہ پر کالے کالے داغ ہیں جو بھی سیاسی پارٹی یا جو بھی ادارہ انہیں کچھ "خرچہ پانی”دے ان کیلئے پبلک ریلیشن آفیسر بن جاتے ہی اسی طرح رشتہ دار صحافی بھی ایک خاص قسم ہے جو ملک کے ہر کونے میں موجود ہے اگر آپ کا کوئی بڑا یا رشتہ دار کسی میڈیا کے ادارے میں موجود ہے تو آپ کو انٹرویو دینے کی ضرورت نہیں نہ ہی آپ کو خبر بنانے کی ضرور ت ہے کیونکہ آپ کے پاس سرٹیفیکیٹ ہے کیونکہ آپ کا کوئی صحافتی شعبے سے منسلک ہے اگر نظردوڑا کر دیکھیں تو ایسے صحافی ہمیں جابجا نظر آئیں گے جو کسی نہ کسی رشتہ دار کی مرہوں منت ہوتا ہے

ایک دوست کے مطابق کہ اسے ایک جگہ پر جاب کی انٹرویو کے لئے بلایا گیا وہاں سب میں تجربہ کار بندہ میں ہی تھا اور خوب خوش تھا کہ یہاں تک آیا ہوں تو کوئی مجھ سے یہ پوزیشن نہیں لے سکتا ، خوش فہمی میں مبتلا انٹرویو دی تو خوشی تھی کہ توقعات سے بڑھ کر انٹرویو ہوئی تھی، باقی جو انٹرویو کے لئے آئے تھے ان سے بات چیت چونکہ ہوئی تھی ایک چہرہ ادا س اداس تھا جب پاس جاکر پوچھا کہ کیوں ٹینس ہو بتایا کہ مجھے کوئی معلومات ہی نہیں آپ سب لوگ تجربہ والے ہو اور یہ میرا فیلڈہی نہیں وہاں موجود دیگر نے کہا کہ خیر ہے کوئی بات نہیں کوشش کرکے ائندہ اپلائی کرنا یہ تجربہ اچھا رہے گا کیونکہ وہ بالکل فریش گریجویٹ تھا مگر جاب اسے ہی ملی کیونکہ اس کا ایک انکل ادارے میں موجود تھا اور یوں رشتہ داری کام آگئی ، اور پشاور سمیت ملک کے دیگر حصوں کی صحافت میں یہ رشتہ داری نظام جڑیں پکڑ چکا ہے اوراب باقی بچتے ہیں بادشاہ صحافی جو آل ان آل ہوتے ہیں یہ صحافی بڑے شہروں میں نہیں بلکہ دور دراز علاقوں میں پائے جاتے ہیں جو کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ان کے سامنے شہر کے صحافی کیا چیز ہوتے ہیں ، ایک کیمرہ اٹھایا اور بن گئے صحافی اور وہ بھی بادشاہ صحافی اور اگر ملک کا موقر روزنامہ بھی ہاتھ میں آگیا تو پھر تو مزے ہی مزے ہیں اور لینڈ کروزر مہینوں میں گھر کے سامنے ہوگا

اچھا سا گھر شہر کے پوش علاقے میں بن جائے گا مگر اس سے پہلے کہ گاوں کا صحافی بادشاہ بن جائے اسے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں انہیں ادارے کو کچھ رقم بطور سیکورٹی جمع کرنی پڑتی ہے اور جس کی سیکورٹی زیادہ ہوگی اس کو ادارہ بادشاہی کا تاج پہنا دیتا ہے جس سے اس کی بادشاہت شروع ہوجاتی ہے پھر بادشاہ سے کون پوچھنے والا ہوتا ہے ایسے صحافی بھلا کے خطرناک ہوتے ہیں ان کی دھاک بہت بڑی ہوتی ہے ، ہمیں ان کی طاقت کا اندازہ اس وقت ہوا جب ہمیں ان سے واسطہ پڑا جب پیٹی بند بھائیوں نے ہماری جیب پر نظر رکھی اور کہا کہ بغیر اس کے آپ کی خبر نہیں لگ سکتی اس پر خرچہ آتا ہے جب تعارف کرایا تو احباب کا موقف تھا کہ ہماری روز ی روٹی اس سے چلتی ہے ، پولیس، ڈاکٹر، سب ان سے ڈرتے ہیں ہمیں جب یہ بات پتہ چلی تو یکایک خیال آیا کہ یہ تو بادشاہ ہیں کسی کو نہیں چھوڑتے ، حتی کہ اپنے پٹی بند وں کو بھی نہیں تو ان کی طاقت کا اندازہ ہوگیا ، جب معلوم کیا تو انکشاف رونگھٹے کھڑے کردینے والا تھا کہ ہمیں ادارہ ایک روپیہ بھی نہیں دیتا اشتہارات کی مد میں کمیشن دیتے ہیں جو اتنے نہیں ہوتے کہ گھر کا خرچ چلا یا جائے اور پھر اضلاع میں اشتہارات کہاں اتنے ہوتے ہیں سو چاروناچار یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے خبروں اور تصویروں کی مد میں پیسے لینے پڑتے ہیں اگر ادارے ہمیں بھی مراعات دیتے تو یہ صحافت نہیں ہوتی جو اضلاع میں ہورہی ہے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ان نمائندوں کو خبر مس ہونے پر کافی سننی بھی پڑتی ہے اور اداروں میں ایک شخص کو ڈیوٹی دی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ ان خبروں کو دیکھیں جو مس ہوچکی ہوتی ہیں ، جس سے ان کی بادشاہت خطرے میں پڑ جاتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے