چند ماہ قبل حریت کانفرنس (میر واعظ گروپ ) کے سرگرم رکن اور جموں کشمیر پیپلزکانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے گلگت کا دورہ کیا یہ نجی دورہ امان اللہ خان مرحوم کے تعزیت کے سلسلے میں تھا اس دوران ایک سیاسی مجلس میں انہوںنے بتایا کہ حریت کانفرنس کے تمام پارٹیاں اور رہنماﺅں کا جھکاﺅں مکمل طور پرپاکستان کی طرف ہے سوائے میرے ،لیکن ہم سب کا متفقہ ایجنڈا انڈیا کی چھتری سے باہر نکلنا اور ان سے آزادی حاصل کرنا ہے فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے کہ کس ملک کے ساتھ جانا ہے وہ ہمیں قبول ہے ۔
قارئین کرام !بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کے 69 ویں یوم آزادی کے موقع پر کیا گیا خطاب مقبوضہ کشمیر میں جاری بربریت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے 1روز قبل یعنی 14اگست کو اپنی یوم آزادی منانے والے ہمسایہ ملک پر گویا پردھان منتری نے ڈرون حملہ کردیا ان کے مطابق آزاد کشمیر ،بلوچستان اور گلگت کے لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اس بات پر کہ بھارت نے ان علاقوں کے حقوق پر آواز بلند کی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جس علاقے کو کبھی میں نے دیکھا نہیں اور کبھی ان لوگوں سے ملا نہیں وہ ہمارا شکریہ ادا کررہے ہیں ‘گویایہ ان کی سیاسی فتح ہے ۔
پردھان منتری کے اس خطاب میں پاکستان کے تین علاقوں کا نام آگیا ہے جن میں دو علاقے یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ،پاکستان کے زیر انتظام اقوام متحدہ کے قراردادوں پر عملدرآمد کے انتظار میں ہیں جبکہ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں اس سے قبل بھی کئی بار انڈیا نے گلگت بلتستان کو اپنا حصہ قرار دیکر مختلف پروپیگنڈے پھیلائیں ہیں بھارتی لوک سبھا میں کئی بار گلگت پر اپنا حق جتانے کی کوشش کی ،حال ہی میں بھارتی وزیر خارجہ اور چینی اعلیٰ سطحی وفد کی ملاقات میں بھی بھارتی وزیر خارجہ نے اس بات پر سخت تحفظات کااظہار کیا کہ چائینہ اور پاکستان کے مابین 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہمارے علاقے یعنی گلگت بلتستان سے گزررہی ہے اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوستان نے گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کو اپنے نقشے میں شامل کرلیا ہے ۔جبکہ کشمیر کو وہ مکمل اکائی اور بھارت کا ہی حصہ سمجھتے ہیں ان دونوں تنازعہ کشمیر کے حصہ علاقوں میں دونوں ممالک کا اپنا اپنا موقف ہے گلگت بلتستان الحاق پاکستان سے اب تک پاکستان سے آئینی حیثیت کا ہی مطالبہ کررہا ہے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان نے بارہا پاکستان کے پانچویں صوبہ کے لئے قراردادیں منظور کی ہیں تاہم تنازعہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان اپنے ہی زیر انتظام وسیع و عریض اور انتہائی اہمیت کے حامل خطے کو وہ حیثیت نہیں دے پارہا ہے ۔
تاہم کشمیر اور گلگت بلتستان سے بلوچستان کا معاملہ یکسر مختلف ہے براہمداغ بگٹی کی جانب سے نریندر مودی کا خیر مقدم کے باوجود بھی یہ مکمل طور پر پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس حوالے سے پاکستان کا کسی بھی دوسرے ملک بشمول انڈیا سے کوئی تنازعہ نہیں چل رہا ہے بلوچستان مکمل طور پر این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دار ہے پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مکمل نمائندگی موجود ہے 46ارب ڈالر کے منصوبے یعنی سی پیک میں سب سے زیادہ فائدہ بھی بلوچستان کے علاقے گوادر کو ہونے والا ہے یہ اور بات ہے کہ بھارتی خفیہ تنظیموں کے حاضر سروس کمانڈرز اس وقت بلوچستان میں اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں کلبھوشن یادیو کے اعتراف جرم کے باوجود چوری بھی سینہ زوری کے مصداق نریندرمودی کا بلوچستان کے حوالے سے ’شکریہ‘کا بیان صرف اس بات کی نشاندہی کررہا ہے انڈیا نے مستقبل میں بھی اپنی نظریں بلوچستان پر مرکوز کی ہیں ان کے حاضر سروس آفیسر نے گرفتاری کے بعد اپنی خفیہ اور منفی سرگرمیوں کا اعتراف بھی کیا جو بھارت کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہے نریندر مودی کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے دیا گیا بیان اور جیش محمد کے چیف اور انڈیا کو مطلوب مسعود اظہر کے بیانات کا پلہ برابر ہے ۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ جنگ کب کی ختم ہوچکی ہوتی اگر کشمیر درمیان میں نہ ہوتا نریندر مودی صاحب گلگت کی فکر کرنے کی بجائے استصواب رائے یا ریفرنڈم کی ٹیبل پر کیوں نہیں آتے ہیں تاکہ گلگت میں موجود ان کے شکرگزار موجودہ تنہائی کی خاموشی سے باہر نکلیں اور اپنا اکلوتے حق رائے دہی کا استعمال کریں ۔
عام عوام کے لئے نریندر مودی کا وہ خطاب انتہائی حیران کن تھا بلکہ ایسے کسی جملے کی توقع بھی نہیں تھی کہ پردھان منتری گلگت کا ذکر اپنے خطاب میں کرینگے معلوم نہیں کہ پردھان منتری جی نے اتنی راز اور چھپی بات کو سربازار کیسے رکھ دی کہ ان کے ایجنٹس اب گلگت میں بھی ہیں مودی صاحب کا یہ کہنا کہ جس جگہے کو میں نے دیکھا تک نہیں اور جن لوگوں سے ملا تک نہیں انہوںنے میرا شکریہ ادا کیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہ تو نے جگہ دیکھی ہے نہ لوگوں سے ملاقات کی پھر اس بات کا تعین کیسے کرلیا کہ آپ کو گلگت سے شکریہ کا پیغام گلگت ہی سے آیا ہے اور اگر واقعی کوئی ننگ ملت موجود ہے تو بھی اتنی حساس اور خفیہ معلومات کو ساری دنیا کے سامنے کیوں رکھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جارحیت اور بربریت میں ہٹلر کی پیروکاری کرنے والے پردھان منتری ہٹلرکی ’پروپیگنڈہ پھیلاﺅ‘مشن پر بھی عمل پیرا ہوں۔قابل زکر بات یہ ہے کہ تینوں علاقوں یعنی بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کے اس بیان پر سخت رد عمل سامنے آرہا ہے(گلگت بلتستان کے تمام اضلاع سمیت تمام سٹیک ہولڈرز نے اس کےخلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا)
پردھان منتری کو پہلی بار شکریہ گلگت سے جس نے بھی ادا کیا ہے اس نامعلوم سے ذرائع سے ہٹ کر اب باقاعدہ شکریہ ادا کی جاتی ہے کہ آپ کے اس خطاب سے گلگت میں موجود انڈین نواز لوگ سکڑ جائیںگے پھیلیںگے نہیں ۔ آپ کے اس خطاب سے اقتصادی راہداری منصوبے کے لئے سیکورٹی مزید سخت ہوگی ۔ اب اس خطاب کے بعد 36لاکھ ڈالر روپے جو سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے آپ نے گلگت کو فوکس کرکے مختص کیا ہے وہ اب کسی صورت بھی گلگت نہیں پہنچیںگے ۔آپ کے اس خطاب سے اگر نواز حکومت نے وفاق میں عقل سے کام لیا تو گلگت وفاق کے قریب ہوگاممکن ہے کہ ٹیکسز سمیت دیگر مطالبات جو عوامی سطح پر اٹھ رہے ہیں میں نرمی اور لچک آئے گی ۔آپ نے گلگت میں اپنے ایجنٹوں کو خود ہی تنہا کردیا ہے ممکن ہے کہ وہ جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیںگے جس پر آپ کا باضابطہ شکریہ ادا کیا جاتا ہے اب گیند راحیل شریف کی طرف جارہی ہے جہاں پر غداری پر کوئی معافی نہیں ۔کیونکہ گلگت بلتستان تو اپنے آپ کو پہلے ہی ’بائی چوائس ‘پاکستانی قراردے چکا ہے ۔