کسی گاؤں میں ایک کنوئیں میں کتا گر گیا۔ مولویوں سے کنویں کی پاکیزگی کے لئے رائے طلب کی گئی۔ کسی نے اپنے فقہ کی بنیاد پرکنوئیں کو پاک کرنے کے لئے سو بالٹیاں نکالنے کو کہا۔ تو کسی مولوی نے پچاس کا کہا۔ کسی نے کہا کہ ۲۰۰ بالٹیاں نکالے بغیر کنواں پاک نہیں ہوگا۔ اتنے میں ایک بزرگ بول اُٹھے۔ کہ بد بختو!! جتنی بھی بالٹیاں پانی کی نکال لو کنواں کیسے صاف ہوگا۔ جب تک کتا کنویں کے اندر پڑا ہوا ہے۔
کراچی میں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث سہولت کاروں اور وفاداروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا قابلِ تحسین و آفریں سہی لیکن جب تک وہ ذہن اور سوچ زندہ ہے جو انکی ذہنی سیرابی کر رہی ہے مسائل وقتی طور پر دب تو جائیں گے مگر مکمل حل نہیں ہونگے۔
پاکستان کی سیاسی فضاء ایک دفعہ پھر کراچی کے حالات کے پسِ منظر میں گرد آلود اور تضادات و تحفظات کا شکار ہوگئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی خبریں جہاں ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لئے اُٹھائے گئے ریاستی اداروں کے اقدامات کوتعریفی سند عطاء کر رہی ہیں،۔ وہیں پر مختلف ا لخیال سیاسی دور اندیشوں اور نظریاتی طور پر مختلف کھونٹیوں سے بندھے ہوئے سیاسی پنڈتوں سے ٹی وی ٹاک شوز میں ایک مخبوط ا لحواس اور ملک دشمن انسان کے لغو اور بیہودہ کلمات کو موضوعِ بحث بناکر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مستقبل کا نقشہ کھینچنے کی کوششیں میں سر گرمِ عمل دکھائی دے رہی ہے۔
جہاں تک پاکستان سے محبت اور وفاداری کا تعلق ہے۔ تو اسمیں کو ئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ اور قومی حمیت اور غیرت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ اور کوئی بھی ایسا شخص جو اس حد کو پھلاندنے یا چھونے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ پورے ملک کے عوام کا دشمن اور ملکی اور قومی غدارہے۔
لیکن یہ پیمانہ کیا ملک کے مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہونا چاہئے؟؟ کیا اس پیمانے پر جانچتے ہوئے پسند و نا پسند کا لحاظ رکھنا چاہئے؟؟ کیا حب الوطنی کی سند عطاء کرتے ہوئے اپنے اور پرائے کی بات ہونی چاہئے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو ملک کے مقتدر اداروں اور پاکستان سے محبت کے دعویداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے۔ کہ یہ کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ہنوز شروع ہوا ہے۔
جہاں تک لندن میں بیٹھے ایک قومی دشمن کا تعلق ہے۔ اس پر شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔ کہ اسکا انجام ایک قومی غدار کی طرح ہی ہونا چاہئے۔ لیکن اس شخص کی بنیاد پر ملک کی بنیادیں رکھنے والوں کو من حیث القوم ملعون و مطعون کرنا صریحا زیادتی ہوگی۔
آج پاکستان کے خلاف نفرت کا بیج بونے والوں سے جن آہنی ہاتھوں سے نمٹا جارہا ہے۔ وائے افسوس کہ ہمارے کمانڈو صدر اور چیف آف آرمی سٹاف محترم جناب مشرف اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انکو اتنا مضبوط نہ کرتے کہ وہ آج قومی پرچم جلانے کی بھی ہمت کر بیٹھے۔ لیکن حیرت کی بات ہے۔ کہ ان ملک دشمن لوگوں کا سرِ عام قوت و طاقت عطا کرنے والے مشرف سے کسی نے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا بلکہ غضب یہ کہ بڑے طمطراق کے ساتھ بیماری کا سند لے کر بڑی جرات کے ساتھ دبئی جاکر جم اور دبئی کی رنگینیوں کے مزے لے رہے ہیں۔
کیا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث جماعت کا دست و بازو بننے کی کوئی سزا نہیں ہونی چاہئے؟؟؟
بلوچستان قوم پرست رہنماء کے تعلقات اپنے ہمسایہ بھارت نوازاور برائے نام برادر ملک کے خفیہ اداروں سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر پاکستان زندہ باد کے نعروں کا انکارصوبائیت اور قومی نفرت کا بیج بو کر کرنا کیا نظریہ پاکستان اور پاکستان سے محبت کا آئینہ دار ہے؟؟ کیا کسی کے شوگر مل سے ہندوستانی ورکرز ( را ایجنٹ بقولِ کسی) کا برآمد ہونا اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ ملک کا ہونہار اور قابل جوان بے روزگاری کی عذاب جھیل رہاہے۔ کسی بڑے خطرے اور ملک دشمنوں سے دوستی کا عندیہ نہیں دے رہا؟
آج اے۔آر۔ وائی اور سماء کے آفسز پر حملہ کرنے والوں کی پکڑ دھکڑحقیقی معنوں میں ایک احسن اقدام ہے۔ لیکن تبدیلی کے نام پر وزیرِ اعظمی کے خواب دیکھنے والے اور باتونی انقلاب کے قائدِ بے معنی کے جیالوں کا جیو ٹی وی پر روزانہ حملے اور پاکستان کے قومی ٹی وی چینل پرحملہ کرنا کیا ملک میں انارکی پھیلانے اور ملکی آئین سکی پامالی کے زمرے میں نہیں آتا؟ عقل حیران ہے کہ آج تک انکا کوئی ورکر ایک گھنٹہ کے لئے جیل تو کیا جیل جانے کے لئے گاڑی میں نہیں بٹھایا گیا۔
سول نافرمانی کی کھلی دعوت اور وہ بھی ملک کے سب سے موقر ترین اداراے پارلیمنٹ ہاؤس کے دامن میں۔۔کیا یہ آئینِ پاکستان سے بغاوت کے زمرے میں نہیں شمار ہوگا۔ بھلے جرم لندن کے میر جعفر اور کراچی کے میر صادقوں جتنا نہ ہو۔ لیکن یہ سب کارنامے بھی تو پاکستان میں انتشار پھیلانے کے غماز ہیں۔لیکن شاید
یہ جنابِ شیخ کا فلسفہ ہے الگ ہی سارے جہان سے
جو یہاں پےؤ تو حرام ہے جو وہاں پےؤ تو حلال ہے
لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ہم ملک دشمنی کے پیمانے ہر خاص و عام کے لئے یکساں طے کرلیں۔ اور جہاں کراچی میں پچھلے چند دنوں میں پاکستان سے نفرت اور ملک دشمنوں کے گود میں پلنے والوں سے ہمارے قومی سلامتی اداروں کے جوان جس عزم و ہمت کے ساتھ نبرد آزماء ہیں۔وہاں وقت کا تقاضا ہے کہ یہ قوت و ہمت اور پاکستان سے محبت کا یہ ولولہ ملک وعوام کے باقی دشمنوں پربھی یکساں طورپر لاگو کیا جائے۔ تاکہ پاکستان کے واضح دشمن اور ہندوستان کے لے پالک اپنی برادری کے سادہ لوح اور فی الوقت مضطرب لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب نہ ہوجائیں کہ یہ سب کچھ پاکستان کی محبت میں نہیں بلکہ ہماری برادری اور ہماری سیاسی قوت سے نفرت کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔
لندن کے میر جعفر کا جرم یقیناًبہت بڑا ہے۔ اور جو اس کی ذات اور اسکے نظریات پر لعنت نہیں کرے گا وہ اس سے بھی بڑا مجرم ہے۔ لیکن کیا اقتدار کے ایونوں میں بیٹھ کر عوام کی دولت سے دبئی اور لندن میں اپنے محلات سجانے اور پاکستان کے عوام کو معاشی بدحالی کے جہنم میں جھونکنے والے قوم اور آئین کے مجر م نہیں؟؟ کیا صوبائیت اور قومیت کی بنیاد پر پاکستان میں نفرت پھیلانا اور اپنے ہمسایہ ہم زبانوں اور پاکستان کے دشمنوں سے محبت کی پینگیں بڑھانا ملک سے وفاداری کے زمرے میں آتا ہے؟
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ کہ ملک دشمن چاہے ملکی حدود کے ہوں یا پھر ملکی معیشت کے۔ غدار چاہے ملکی آئین کے ہوں یا پھر پاکستان کے اساسی نظرے کے ہمیں طے کرنا ہوگا کہ اسمیں اپنا پرایا ، دشمن ، چہیتا یا پھر مخالف اور دوست کی تمیز ختم کرکے ایک دفعہ بڑا بے رحمانہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ کے بدترین اور شرمناک مثالیں ایک دفعہ پھر دہرائی جائیں گی۔ اور میر جعفر اور میر صادق چاہے وہ لندن میں ہوں یا دبئی میں، چاہے وہ دشمن ملک کی گود میں ہوں یا پھر دولت کے ہوس میں غرق عوامی دشمن ہمارے حکومتی ایوانوں میں پھر دھندھناتے پھریں گے اور ہم الیکٹرانک میڈیا کے بریکنگ نیوز کے ساتھ اپنا خون جلاتے رہیں گے۔