تاریخ اور تاریک میں فرق؟

آج کل کتنے ہی ایسے کام ہو رہے ہیں جس سے جنرل ضیاء الحق کی روح بہت تڑپ رہی ہو گی۔۔ مثلاً یہ کہ ایک آئین توڑنے والے کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں، پرویز مشرف کے حوالہ سے جمہوریت پسند افراد کو ابھی بھی تکلیف ہے کہ وہ بیرون ملک کیسے چلا گیا لیکن فیلڈ مارشل کا فارمولہ ہوتا تو مادر ملت(اصل والی حسن نثار والی نہیں) کو ہرانے کے بعد بھی وہ فخر پاکستان کہلاتے رہے، آج بھی ٹرکوں پر لکھا ہوتا ہے تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔۔

ہمیں جو تاریخ پاکستان سکولوں، کالجوں، یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے اس میں تحریک پاکستان تک محترمہ فاطمہ جناح کا کردار موجود ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں کس طرح ایک فوجی آمر نے دھاندلی کے ذریعہ الیکشن میں ہرا یا۔

ہماری تاریخ میں شیر بنگال مولوی فضل حق کا ذکر بھی تحریک پاکستان میں موجود ہے مگر سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کا کوئی ذکر نہیں۔۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا کوئی ذکر نہیں۔۔ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ جنرل رانی کا ذکر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔۔ ملکہ ترنم کا جنگ ستمبر میں کردار نظر آیا، 71 کی جنگ میں وہ کہاں تھیں وہ تصاویر دکھائی نہیں دیتیں۔۔

افغانستان کی جنگ کے حوالہ سے بھی بہت سے تاریخی حقائق عوام کو نہیں معلوم ۔۔ ہم نے اپنے مسلم بھائی بہنوں کی مدد کی تھی۔۔ لیکن اس مدد کے نتیجہ میں ہمارے ساتھ کیا ہوا۔۔ آج لوگ طالبان کے مظالم پر جنرل ضیا کو کیوں یاد کرتے ہیں نئی نسل نہیں واقف؟ فرقہ واریت کا ذکر آتا ہے تو پھر انہی مرد مومن کا ذکر کیوں ہوتا ہے؟ متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بھی لوگ اس مرد حق کو کیوں جوڑتے ہیں؟

کافی دنوں کے بعد اعتزاز احسن صاحب کو بھی سچ بولنے کی ہمت ہوئی تو انہوں نے کہا جنرل ضیاء اور مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کے ساتھ یہ نہ ہوتا جو۔۔ اب ہو رہا ہے۔ اب یہاں بھی نئی نسل پوچھتی ہے جنرل صاحب کو تو رخصت ہوئے کافی عرصہ گزر گیا پھر ان کا کیا تعلق بنتا ہے ایم کیو ایم یا الطاف بھائی کے ساتھ؟ تو میں کہتا ہوں بیٹا تاریخ پڑھو۔۔ لیکن کیا کریں تاریخ بڑی ظالم ہے۔

مغل شہنشاہوں سے بھی بہت پہلے یہ روایت ڈالی جا چکی ہے کہ تاریخ میں اپنے آپ زندہ رکھنا ہے تو تاریخ اپنے دور میں ہی مرتب کروانی شروع کروا دیں ۔ لوگوں کو سرعام پھانسی دے کر ۔۔ یا پھر دربار میں بلا کر کسی کا بھی سر اڑا دیا جائے پھر اسے باغی لکھ دیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ ہمارے کئی سندھی دوست کہتے ہیں محمد بن قاسم ہمارا ہیرو نہیں تھا ، ہمارا ہیرو تو راجا داہر تھا۔ میں ان کی بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے پھر میں نے نسیم حجازی کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی دیکھے ہیں۔۔ اس میں راجا داہر کی صورت بہت بھیانک جبکہ محمد بن قاسم کے چہرے پر نور کی برسات تھی۔۔ میں نے خود وہ ڈرامے دیکھ رکھے ہیں اس لیے میں سائیں شاکر یا سائیں عطا کی باتوں میں نہیں آتا۔۔ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اپنے مرنے سے پہلے ہی تاریخ لکھوا لیے کرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا تھا جس طرح وہ اپنے سگے بھائیوں اور رشتے داروں کو اپنا تخت سلامت رکھنے کے لیے مرواتے رہے ہیں کوئی ان کا بھی سر اڑانے کی تیاری کر کے بیٹھا ہو گا۔ کسی غریب کو خواب میں بھی دیکھ لیتے تو صبح اٹھتے ہی پہلے اس کا سر قلم کروا کے ناشتہ اطمینان سے کرتے، کبھی خواب کی تعبیر سچ بھی ہو سکتی ہے اس میں برائی بھی کیا ہے۔

بہرحال بات اپنی متحدہ قومی موومنٹ کی ہو رہی ہے ، میں نوے کی دہائی میں جب کراچی جایا کرتا تو اکثر دیواروں پر ایک نعرہ درج ہوتا، منزل نہیں راہنما چاہئے، اس سے کچھ آگے درج ہوتا الطاف بھائی زندہ باد۔۔ میں اکثر اپنے محترم عبدالعظیم بھائی کو پوچھا کرتا ۔۔ یار ، اس بات کا کیا مطلب ہے منزل نہیں راہنما چاہئے۔۔ تو وہ کہتا ہمیں سب سے زیادہ عزیز اپنے الطاف بھائی ہیں ۔۔ ہمیں کچھ نہ ملے مگر اپنے قائد کی دوری ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔۔

لیکن اب ۔ سین تبدیل ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے راہنما نہیں منزل چاہئے۔۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت حسین بھی کہتے ہیں الطاف بھائی نہیں بلکہ اب انہیں منزل چاہئے جس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی۔ڈاکٹر عامر لیاقت تو یہ بھی کہتے ہیں الطاف بھائی انہیں قتل کروانا چاہتے ہیں۔۔ لیکن وہ دوست جو انہیں اس رات گاڑی میں بٹھا کر مشاورت کے لیے لے گئے تھے انہوں نے سمجھایا ہے ، اب ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ جن لوگوں سے یہ کام لیا جاتا تھا آج کل وہ افراد خود اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں، کئی تو اپنی جان سے ہاتھ دھو کر راہ عدم کے راہی ہو چکے۔اس لیے انہوں نے ہمت پکڑی اور سب کچھ بول دیا۔

آصف حسنین تو جناب ان سے بھی آگے نکل گئے اور جا ملے اپنے مصطفی کمال بھائی کے ساتھ۔۔ وہ اب کہتے ہیں ڈاکٹر فاروق ستار بالکل بھی الطاف بھائی کے چنگل سے نہیں نکل سکتے۔۔آصف بھائی سچ کہہ رہے ہیں کیونکہ عظیم احمد طارق اور عمران فاروق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔لیکن کراچی میں ایک فرق تو نظر آیا ہے ، الطاف بھائی کو ایم کیو ایم سے الگ کیا جا رہا ہے مگر کراچی بند نہیں ہوا، دکانوں کو تالے نہیں لگے، گاڑیوں کو آگ نہیں لگائی گئی۔

ویسے کچھ بھی ہو جائے ہمیں کیا؟ ہم لوگوں کی تو یادداشت بھی اتنی اچھی نہیں، تاریخ میں بھی تاریک گوشوں کا ذکر نہیں ہوتا بس تاریخ میں اچھا ذکر ہوگا تو اکبر بادشاہ کا ۔۔۔ جس نے ایک الگ مذہب ایجاد کر دیا خود ہندو خاتون سے شادی کر لی، حرم میں شامل خواتین اور ہیجڑے اس سے الگ ہیں۔۔ مگر وہ آج بھی ہمارا ہیرو ہے۔۔ تو کیا ہوا اگرایوب خان بھی ہمارا ہیرو ہے، سقوط ڈھاکہ کے باوجود یحییٰ خان ہمارا ہیرو ہے،ہیروئن و کلاشنکوف کلچر اور طالبان کا تحفہ دینے والا مرد مومن مرد حق بھی ہمارا ہیرو ہے۔

اسی کو تاریخ کہتے ہیں جو تاریک بھی ہو تو کیا ہوا ؟صرف ک اور خ کا فرق ہے۔۔۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے