ہماری ذہنی بیماری

پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ انہیں چاروں طرف سے خطرات اور سازشوں کا سامنا ہے جبکہ ‘نامعلوم’ دشمن ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد میں روزبروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں کوئٹہ کے ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے میں بلوچ وکلا کی قریباً پوری نسل ہی ختم ہو گئی مگر بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثنااللہ زہری نے فوری طور پر اس حملے کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سر تھوپ دیا۔ تاہم دہشت گردی کے اس خوفناک واقعے میں غیرملکی ہاتھ کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بھی اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت نہیں دیا کہ یہ حملہ پاک چین معاشی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی۔ثبوت کے بغیر نتائج اخذ کرنے سے ذاتی یا ادارہ جاتی مفادات درست فیصلوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صرف حکومت اور فوج نے یہ نتائج اخذ نہیں کیے بلکہ پاکستان کی پوری سیاست میں ہی اسی قسم کا شکی رویہ غالب ہے۔ ٹی وی آن کیا جائے تو سکرین پر سیاسی مذاکروں میں میزبان اور مہمان انتہائی مبالغے سے کام لیتے ہوئے شکوک اور سازشی تصورات کی گرما گرم بحث میں مصروف دکھائی دیں گے۔یہی نہیں بلکہ بسا اوقات ہمارے دانشور بھی ذاتی مفادات کی خاطر ایسے ہی شبہات اور ذہنی اختلال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں خود قائداعظم یونیورسٹی میں ایسی ہی صورتحال کا عینی شاہد ہوں جہاں قریباً پورا تدریسی شعبہ ہی اسی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا۔

یہ 20 برس پہلے کی بات ہے جب مجھے پتا چلا کہ میں بیک وقت را، سی آئی اے، موساد اور جماعت احمدیہ کا ایجنٹ ہوں۔ بہت سے پمفلٹس اور پوسٹرز (یہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں) سے مجھے اندازہ ہوا کہ میں ان تنظیموں کی اعلیٰ قیادت سے کئی مرتبہ مل چکا ہوں۔ ان پمفلٹس کے مطابق 6 اپریل 1995 کو میں نے سنگاپور کے رائل ہوٹل میں بھارتی قونصل جنرل سے ملاقات کی تھی۔ اسی طرح 23 جنوری 1993 کو میں لندن میں جماعت احمدیہ کے سربراہ سے ملا جبکہ 18 جون 1994 کو میری ملاقات امریکی سینیٹر لیری پریسلر سے ہوئی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے کبھی نہیں ملا تھا۔میرے ساتھی ڈاکٹر اے ایچ نیئر کو پتا چلا کہ سشیلا رامائن نامی کوئی پراسرار بھارتی خاتون ان سے ملنے کے لیے اکثر و بیشتر ناگ پور سے اسلام آباد کا سفر کرتی ہے اور نیئر کے ایک اشارے پر بھارتی ہائی کمیشن کسی کو بھی ویزا جاری کر سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی خاتون کبھی ان سے نہیں ملی تھی اور ان کے پاس کسی کو بھارتی ویزا دلوانے کا بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔اصل کہانی کچھ یوں ہے کہ 1996 کے اوائل میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بظاہر پارلیمنٹ میں اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے لیے زمین حاصل کرنے کا سوچا اور انہیں قائداعظم یونیورسٹی کے کیمپس میں بہترین جگہ پر پلاٹ پیش کیے۔ حکومتی ایوانوں سے بمشکل ایک میل فاصلے پر واقع یہ زمین 1700 ایکڑ پر مشتمل تھی۔ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے اس سے زیادہ اچھی جگہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔اس منصوبے کو خوش اسلوبی سے عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کو اصل سے کہیں کم قیمت پر چھوٹے سائز کے پلاٹ دینے کی پیشکش کی جسے سن کر کیمپس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس ڈیل کے نتیجے میں سبھی نے مالامال ہو جانا تھا۔تدریسی شعبے سے دو ارکان نے اس منصوبے سے اختلاف کیا جن میں ڈاکٹر نیر اور میں شامل تھے۔ ہم یہ معاملہ عدالت میں لے گئے اور کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی کی زمین ‘پبلک ٹرسٹ’ اور پاکستانی طلبہ کی آنے والی نسلوں کے لیے مختص ہے۔ لہٰذا اسے کسی کی نجی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے بجائے یہ زمین بہرصورت نئے ہاسٹلز، تدریسی شعبہ جات اور کھیل کے میدانوں کے لیے مخصوص رہنی چاہیے۔

اس اقدام پر ہمارے خلاف گویا جہنم کے دروازے کھل گئے۔ جو لوگ ربع صدی سے ہمارے ساتھ تھے اب وہ ہم سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ہمیں روزانہ بھارت اور اسرائیل کا پروردہ قرار دیا جاتا، اساتذہ کے ہجوم ہمیں دھمکیاں دیتے اور میرے گھر پر حملہ بھی کیا گیا۔ قائداعظم یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ ممبر ہونے کے ناطے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی پلاٹ کے حصول کے امیدوار تھے۔ ان کے اشارے پر کئی ماہ تک میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا گیا۔1996 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد عدالت نے اس منصوبے پر عملدرآمد روکنے کے احکامات جاری کر دیے۔ بعدازاں قائداعظم یونیورسٹی میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پورے ایک سمیسٹر کے لیے تدریسی عمل بھی معطل رہا۔ اس دوران ہم دونوں کے خلاف روزانہ مظاہرے کیے جاتے تھے۔ نیئر اور مجھے یہ جنگ جیتنے میں مزید ایک سال لگا۔ ہمیں بدنام کرنے والوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود قائداعظم یونیورسٹی کی زمین بالاخر محفوظ ہو گئی۔

پاکستانی معاشرے میں دوسروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے اسی رویے سے فائدہ اٹھا کر مخالفین نے ہم دونوں پر غیرملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہونے کا ٹھپہ لگایا۔ ان کا اصل مقصد قائداعظم یونیورسٹی کی سرکاری زمین کو نجی استعمال میں لانا اور اس سے مالی فوائد حاصل کرنا تھا۔ بدقسمتی سے ان کے عائد کردہ الزامات اس قدر لغو اور بیہودہ تھے کہ عام لوگوں نے انہیں تسلیم ہی نہ کیا۔ بھارت اور اسرائیل کی خٖفیہ ایجنسیوں کو اساتذہ کی رہائشی کالونی میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟بالاخر سچائی غالب آئی اور آج بھی سچائی کو غالب آنا ہے۔

میرے پاس اس بات کے حق میں کوئی ثبوت نہیں کہ کوئٹہ دھماکا را نے کروایا تھا یا اس کارروائی میں را کا ہاتھ نہیں تھا۔ تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان کے ایک منحرف دھڑے اور داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان دعووں نے صورتحال کو بہرحال مشکوک بنا دیا ہے اور اب ہمارے حکام کو کم از کم اپنے ابتدائی بیانات کی وضاحت یا درستگی ضرور کر لینی چاہیے۔دو سال قبل تحریک طالبان پاکستان نے آرمی پبلک سکول میں طلبہ کا قتل عام کیا تھا جس کا جواب فوج نے آپریشن ضرب عضب کی صورت میں دیا۔ بعد ازاں رواں برس کے آغاز میں تحریک طالبان کے ایک دھڑے نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں 22 طلبہ کو قتل کیا۔تاہم مخصوص ذہنی اختلال کے باعث دوسروں پر شک کرنے والوں کا وطیرہ یہ ہے کہ اگر کسی واقعے میں بھارت کو ملوث نہ کیا جا سکتا ہو تو اس کی ذمہ داری اسرائیل پر ڈال دیتے ہیں۔

جولائی 2011 میں کراچی میں ہنگاموں کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے ڈرامائی طور پر اعلان کیا تھا کہ شہر میں اسرائیلی ساختہ اسلحے کی کھیپ پکڑی گئی ہے اور ان ہتھیاروں کی مدد سے کراچی کو غیرمستحکم کرنے کا مذموم منصوبہ بنایا گیا تھا۔اس واقعے سے کئی سال بعد شہر میں رینجرز کی بہت سی کارروائیوں کے نتیجے میں اسرائیل منظرنامے سے غائب ہو چکا ہے۔ کراچی میں تشدد کے پیچھے نسلی و سیاسی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کے بجائے حکومت نے آسان حل یہ نکالا کہ مسائل کی ذمہ داری دوسرے ملک پر ڈال دی جائے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے دشمن ہمیں کمزور اور غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کو بیرون ملک سے ہونے والی مداخلت کےخلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ تاہم اگر دوسرے ممالک پاکستان میں تشدد کو ہوا دے رہے ہیں تو اس کا ثبوت بھی سامنے لایا جانا ضروری ہے۔

سرکاری حکام اور میڈیا کو ثبوت کے بغیر زبانیں چلانا زیب نہیں دیتا۔تصوراتی سازشیں دراصل ہماری صفوں میں موجود دشمن سے ہماری توجہ ہٹا دیتی ہیں۔ ہمارے دشمن وہ مذہبی شدت پسند ہیں جو بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام تک اس ملک اور عوام پر لامختتم جنگ مسلط رکھیں گے۔ اگر ہم پاکستان کے بچوں، وکلا، پولیس اہلکاروں اور سپاہیوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف لڑ رہے ہیں تو ہمیں دوسروں پر انگلی اٹھانے کے بجائے حقائق سامنے لانا چاہئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے