کراچی کا پلاٹ

ملاوٹ اچھی نہیں ہوتی مگر زبانیں اس سے بچ نہیں سکتیں، دل کا بڑا پن اُنہیں مجبور کردیتا ہے کہ دنیا بھر کے لفظوں کو اپنے دامن میں جگہ دیں، اردو بول چال میں انگریزی لفظوں کی آمیزش بھی قابل تحسین نہیں مگر کبھی کبھی انسان مجبوری کے ہاتھوں بے بس ہوجاتا ہے، اب لفظ پلاٹ کو ہی لے لیجئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہوں یا انگوٹھا چھاپ، انگریزی کے اس لفظ سے ہر ایک استفادہ کررہا ہے۔

ذرا سوچیے منہ میں پان کی پیک بھری ہو اور اسٹیٹ ایجنٹ بول رہا ہو۔ ’’قال نل کا پلوٹ ہے، سونے کی قان ہے قان، میری مانو تو ٹوقن قرادو۔ باکی کی پیمنٹ ہوتی رہے گی‘‘۔ اس ایک جملے میں پلاٹ، ٹوکن، پیمنٹ 3 انگریزی لفظ استعمال ہوگئے، اسے کہتے ہیں مجبوری کا نام شکریہ۔

پلاٹ کے ذکر پر ایک افسوسناک واقعہ یاد آیا، ملتان میں ایک عورت کی ناک اُس کے رشتہ داروں نے صرف اس وجہ سے کاٹ ڈالی تھی کہ اُس نے اپنے پلاٹ سے ڈیڑھ انچ زیادہ جگہ گھیر کر دیوار اُٹھادی تھی۔ زمین کے جھگڑے میں زن کی ناک زن سے کٹ گئی، افسوس کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور پھر پلاٹ کی طرف آتے ہیں، پراپرٹی مارکیٹ اوپر نیچے ہوتی ہے تو چاروں طرف پلاٹ پلاٹ کا شور مچ جاتا ہے، کوئی بیچنے کو باؤلا ہوا جاتا ہے کوئی خریدنے کو اُتاؤلا۔

جیتے جاگتے انسانوں کی زندگی کی طرح جھوٹی کہانی میں بھی پلاٹ کی بڑی اہمیت ہے، ہوائی قلعہ میں بیٹھ کر خیالی پلاؤ کھانے والے اس فکر سے آزاد ہیں مگر حیققت کی دنیا میں گھر بنانا ہو تو زمین کے ٹکڑے کے بغیر ممکن نہیں، کچھ بدنیت لوگ زمین کے ٹکڑے پر بھی قبضہ کرکے دوسروں پر زمین تنگ کردیتے ہیں اور کچھ بددیانت ادیب بھی دوسروں کا پلاٹ ہتھیا کر اُس پر ادبی آرکیٹکچر کا شاہکار نمونہ کھڑا کردیتے ہیں، پلاٹ مسجد کا ہو یا پارک کا، یا پھر اسکول کالج، چائنا کٹنگ کی بلا نے (چائنا کٹنگ کا مترادف اردو لفظ اگر مل بھی جائے تو اتنا خوبصورت اور جامع نہیں ہوگا) سب کچھ نگل لیا ہے، خیر یہ تو کراچی نام کے تاریخی ناول کا پلاٹ شروع ہوگیا، ویسے کراچی کی سیاست میں ایک نئی کہانی لکھی جارہی ہے، پلاٹ میں جھول تو ہے، البتہ بھرائی کیلئے ڈمپرز بھر بھر کر سنگینی اور دلچسپی ڈالی جارہی ہے، اس پلاٹ کے بارے میں پہلے کچھ لوگ کہہ رہے تھے ’’کمال کا پلاٹ ہے ‘‘مگر پھر اس کی بھی ڈبل فائلیں نکل آئیں، کچھ کہانیاں سیاہی کے بجائے خون سے لکھی جاتی ہیں۔ دعا یہی ہے کہ اگر اس پلاٹ کے مقدر میں ایسی کوئی کہانی ہے تو خدا کرے کہ لکھنے والے کا قلم ٹُوٹ جائے۔

سنجیدہ اور خشک باتیں، زندگی بھی تو ایسی ہی ہے، موضوع بدلنا زندگی بدلنے سے بہت آسان ہے، تو ہم ایک بار پھر اسی پلاٹ کی بات کرتے ہیں جس کے سب دیوانے ہیں۔ آپ انصاف کے دکانداروں کو دیکھ لیجئے یا سیکیورٹی کے تاجروں کو، نعرے بیچتے سیاستدانوں نے تو اس گنگا میں سب سے زیادہ ہاتھ دھوئے ہیں، رہ گئے عوام تو اُن میں کچھ ضروری کام سے سورہے ہیں اور کچھ پلاٹ دیکھنے سائٹ پر گئے ہوئے ہیں، ممکن ہے ٹوکن کراکے ہی واپس آئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے