شکریہ امی جی!

میرے گھر میں میری والدہ اور میرے بھائی ابرار اور میرے علاوہ تمام افراد شاعر تھے،بچپن بہت ہی مزیدار تھا، گھر میں ادبی محافل ہوتیں احمد ندیم قاسمی، عطاالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، شہزاد احمد، احمد فراز، افتخار عارف، خالد شریف، انور مسعود، سرفراز شاہد، عطا شاد۔۔ غرض کسی بھی شاعر کا نام لیں وہ سب ہمارے چھوٹے سے گھر کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں مشاعرہ ضرور پڑھ چکے ہیں۔۔ ان مشاعروں میں ہمارے گھر کے پانچ شاعر تو ضرور پڑھا کرتے۔۔ والدہ کچن میں ان شعرا کے لیے پکوان پکاتیں ، باقی سب شعر پڑھتے مگر میں۔۔ میں کیا کرتا تھا؟

کچھ نہیں۔۔ بس تمام شعرا کا کلام سنا کرتا۔۔ جب سب بڑے شعرا میرے گھرانے کے شعرا کو داد دیتے تو خوشی بھی ہوتی اور افسوس بھی۔۔ خوشی اس بات کی کہ میرے والد، بھائیوں اور بہنوں کو شعروں پر داد مل رہی ہے ، افسوس اس بات کا کہ میں شعر کیوں نہیں کہہ سکتا۔ ایسا محسوس کر کے میں گھر سے دور چلا جاتا اور جب کوئی مجھ سے کہتا چلو تیار ہو جاؤ۔۔ آج فلاں جگہ مشاعرہ میں جانا ہے تو میں کہتا ۔۔ مجھے نہیں جانا۔۔ پھر جانا بھی پڑتا تھا کیونکہ گھر میں مجھے اکیلا چھوڑ کر تو نہیں جایا جا سکتا تھا۔

ایک مرتبہ ایک تقریری مقابلہ میں مجھے کتاب انعام میں ملی۔ کلیات ساغر صدیقی۔۔ پھر شاعری کی کتاب ، میں نے اکتاہٹ کے ساتھ سوچا، میں نے اس کا کیا کرنا ہے؟۔۔ قریب تھا کہ میں کتاب ابو جی کی الماری میں رکھ دیتا ۔۔ میں نے اسے کھول کر پڑھنا شروع کر دیا، ساغر صدیقی مرحوم کی ایک نظم پر میری نظر ٹک گئی۔۔ گرانی۔۔ میں نے پڑھنی شروع کی تو وہ انقلابی نظم ایک ہی جھٹکے میں مجھے یاد ہو گئی اور بخدا وہ نظم آج بھی ایسی لگتی ہے جیسے آج کل کے حالات پر ہی لکھی گئی ہو۔۔ گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے، وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے، اطاعت پر ہے جبر کی پہرہ داری۔۔ آج بھی مجھے اسی طرح یاد ہے حالانکہ میری یادداشت اتنی اچھی نہیں رہی۔

اتفاقاً خالد شریف صاحب لاہور سے تشریف لائے تو ہمارے گھر میں مشاعرہ کے اہتمام کیا گیا۔ جب سب شعرا کلام سنا چکے تو میں نے کھڑے ہو کر کہا میں نے بھی کچھ لکھا ہے میں بھی سنانے کی اجازت چاہتا ہوں، سب ہنس پڑے۔ اچھا چلو سناؤ۔۔ ابو جی نے کہا۔۔ مجھے یاد ہے میری امی جی بھی کچن سے نکل کر دروازے میں آن کھڑی ہوئیں اور مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگیں۔۔ جب میں نے نظم شروع کی تو سب کے منہ حیرت سے کھلے رہ گئے۔
پڑھ چکا تو کمرے میں سکوت چھا گیا۔ابو جی نے کہا پھر سناؤ، میں نے دوبارہ نظم پڑھ دی۔۔۔ سب نے حیران ہو کر پوچھا یہ تم نے لکھی ہے؟

کیوں؟ اچھی نہیں کیا، میں نے پوچھا۔۔ اگر کوئی کہتا کہ اچھی نہیں تو میں کہہ دیتا کہ یہ ساغر صدیقی کا کلام ہے ان ہی سے پوچھئے۔۔ مگر سب نے تعریف کی تو میں کھل اٹھا، برسوں کی خواہش پوری ہوئی۔ میری بھی تعریف ہوئی۔لیکن یہ سب عارضی ثابت ہوا۔۔ میں نے جہاں کتاب چھپائی تھی وہاں سے صفائی اگلے روزہی ہو گئی اور کتاب چڑھ گئی گھر والوں کے ہاتھ، واپس آیا تو سب نے مجھے ساغر صدیقی کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔۔ میں سمجھ گیا چوری پکڑی گئی۔۔ میں کھسیا کر امی جی کے دامن سے لپٹ گیا۔۔ انہوں نے پیار سے مجھے سمجھایا بیٹا ۔۔ اگر تم شاعر نہیں تو کوئی بات نہیں ، اللہ پاک نے تمہیں کوئی اور ہنر دیا ہو گا۔ بس اسے تلاش کرو۔

میں نے خوب سوچنے کے بعد نثر نگاری شروع کر دی، ابو جی چونکہ نوائے وقت میں تھے تو شروع سے ہی اخبار پڑھنے کا بھی شوق تھا، اخبار میں عطا الحق قاسمی صاحب کا کالم باقاعدگی سے پڑھا کرتا، ان کے لہجہ کی شگفتگی نے مجھے بھی طنز و مزاح لکھنے پر لگا دیا۔۔ یعنی میرے پہلے روحانی استاد۔۔ عطاء الحق قاسمی صاحب ہیں۔

جب میری تحریریں امی جی پڑھا کرتیں تو کہتیں میں کہتی تھی ناں۔ میرا لالہ شاعر نہیں تو کیا ہوا۔۔ بہترین لکھاری ہے۔۔ ماں کی تعریف سے ہی میں خوش ہو جاتا۔۔ اس دن میری خوشی دیدنی تھی جب میری پہلی تحریر غالباً تیرہ برس کی عمر میں نوائے وقت جمعہ میگزین کے سینٹر فولد میں شائع ہوئی۔۔پھر امی جی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں تو میری تعریف و توصیف کرنے والا کوئی نہ رہا، میں نے بھی لکھنا کم کر دیابلکہ تقریباً بند ہی کر دیا۔

کافی عرصہ بعد احساس ہوا ۔۔ اگر لکھا نہ گھٹ گھٹ کر مر جاؤں گا تو پھر لکھنا شروع کر دیا، اب کی بار زمانہ ترقی کر چکا تھا اس لیے اپنا بلاگ سپاٹ بنا لیا، ویب سائٹس پہ بھیجنا شروع کر دیا، تعریف کرنے والے بہت سے ہو گئے۔ حال ہی میں ، ایک تحریر ایسی سرزد ہو گئی جو سیدھی دل سے نکلی اور کاغذ پر منتقل ہوئی۔۔ قلم برائے فروخت۔۔ ہے کوئی خریدار۔۔ اس میں صحافیوں کی حالت زار بیان کی تھی۔۔ پسندیدگی کے تمام ریکارڈ ٹوٹے لیکن ایک اور بات بھی ہوئی کہ کچھ افراد نے میری تحریر اپنے نام سے بھی مختلف ویب سائٹس اور اپنی فیس بک پر لگا لی۔۔

یہ سب دیکھ کر مجھے بہت افسوس بھی ہوا لیکن پھرمجھے میرا بچپن بھی یاد آ گیا جب مجھے شاعری نہیں آتی تھی تو میں شاعر بننا چاہتا تھا، آج میں نغمہ نگار بھی ہوں ۔۔ مگر اس وقت میں نے ایک بہت بڑے شاعر کی نظم سرقہ کی تھی۔۔ بچپن یاد آتے ہی یہ احساس بھی ہوا صاحب کہ سرقہ اس تحریر کا ہوتا ہے جو اچھی ہوتی ہے۔۔ اس لیے مجھے آج پھر امی جی کا پیار بھرا ہاتھ اپنے سر پر محسوس ہوا۔۔ جیسے وہ کہہ رہی ہوں ۔۔ میں نے کہا تھا ناں میرا لالہ ۔۔بہت اچھا لکھاری ہے۔۔

شکریہ امی جی! اگر آپ یہ احساس نہ دلاتیں تو مجھے کبھی قلم پکرنے کی ہمت نہ ہوتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے