ایک عرصہ سے لوگوں نے بھیک مانگنے کو پیشہ بنا رکھا ہے۔ ضرورت مند مانگنے سے رہا اور پشہ ور گھر بیٹهنے سے..!!
مانا کے ضرورتیں انسان کو محتاج بنا دیتی ہیں اور وسائل کی عدم دستیابی کے سبب کچھ بے بس ، لاچار اور تنگ دست لوگ مجبورا بهیک مانگنے نکل پڑتے ہیں مگر ان کا ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ پھر بھی یہ مجبور لوگ اپنے ضمیر کا گلا گهونٹ کر ایسے علاقوں ، قصبوں اور محلوں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں جاننے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ وہاں وہ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور مارے شرم کے سوال کرتے پھرتے ہیں۔
ایک قسم وہ ہے جو صرف دکانداروں سے مانگتے ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو مخصوص جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے مانگنے والے آپ کو سڑکوں کے کناروں تک محدود دکهائی دیں گے۔ حقیقیت یہ ہے کہ ان کو اس راہ پر چلانے والے منظرسے غائب رہتے ہیں۔ یہ خفیہ ہاتھ صبح سویرے انہیں ان کی مخصوص جگہوں پر چھوڑ جاتے ہیں اور شام میں اٹھا لاتے ہیں۔ شام کو ساری جمع پونجی ان خفیہ ہاتھوں کو دے دی جاتی ہے جس کے بدلے انہیں دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے۔
ایک قسم وہ ہے جس نے اس کام کو باقاعدہ پیشہ بنا رکھا ہے۔ ان میں شرم و حیا نام کو نہیں ہوتی۔ اس قبیل کے لوگ آپ کو بسوں میں بے تحاشا نظر آئیں گے ، کچھ اس طرح کے بہانے کرتے ہوئے :
٭ میں دور دراز کے ایک گاؤں سے آیا ہوں اور میری جیب کٹ چکی ہے اللہ کا واسطے مجھے واپسی کا ٹکٹ دلوا دیجیے۔
٭ میں گھر میں کمانے والا اکیلا ہوں۔ ایک کمپنی میں کام کرتا تھا چهت سے گرنے کی وجہ سے اب کام کے قابل نہیں رہا۔
٭ میرا چھوٹا بیٹا بیمار ہے اس کی دوائیوں کے لئے کچھ مدد کر دیں۔
٭ جامعہ مسجد فلاں فلاں زیر تعمیر ہے ریتی بجری سیمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔
٭ آج جمعرات کا بابرکت دن ہے قرآن خوانی کی مد میں امداد کردیجے۔ آپ کے لیے دعا کریں گے۔
اسی مانند مزید بےتحاشا گل فشانیاں جن سے کبھی نا کبھی ضرور آپ کی سماعتیں بھی محظوظ ہوئی ہوں گی ۔
میرا یہ ماننا ہے کہ اس طرح چلتے پھرتے مصنوعی فقراء کی مدد سے کہیں بہتر یہ ہے کہ آپ ایک حقیقی فقیر کی مدد بعد از تحقیق ہمیشگی سے جاری رکھیئے ۔
آپ کا بلاتحقیق مانگنے والوں کو دینا ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ وہ مزید مانگتے رہیں اور اس وجہ سے حقیقی محتاج کا حق بھی مارا جاتا ہے لہذا اس بابت خیال کیجئے تاکہ فقیری و محتاجی حقیقی رہے اور پیشہ نہ بن سکے ۔