قربانی کی اہمیت اور حکم

[pullquote]قربانی کی اہمیت:
[/pullquote]

قربانی اسلام کی علامات اور شعائر میں سے ہے ارشاد باری تعالی ہے: اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹ (اور اسی طرح گائے بکری اور بھیڑ) کو اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا ہے جن میں تمہارے لیے فائدے بھی موجود ہیں (القران) اس آیت میں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ ہر سال کروڑوں مسلمانوں کی قربانی کو مال کا ضیاع اور اسراف سمجھنا غلط سوچ اور بے بنیاد تصور ہے بلکہ مسلمان قربانی کے ذریعے دین کا شعار بلند کرنے کے ساتھ دیگر دنیوی اور آخروی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں تجارت کی منڈیاں سجتی ہیں، کاروبار تیز ہو جاتا ہے ٹرانسپورٹ کا کاروبار، جانوروں کے چارے کا بزنس، جانوروں کی برآمد اور در آمد کا انٹرنیشنل بزنس، منڈیوں کے لیے کرایہ کی زمین کا حصول وغیرہ وغیرہ مختلف کاروبار عروج پر پہنچ جاتے ہیں، کروڑوں اور اربوں کی آمدن اور کمائ سے ہزاروں گھروں میں سال بھر کے لیے چولھے جلتے ہیں، علاوہ ازین مسلمان قربانی کا گوشت اپنے عزیز و اقارب، دوستوں، پڑوسیوں، غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کو کھلا کر خوشیاں اور محبتیں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ رب تعالی کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ بھی حاصل کرتے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے: اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیزگاری اس کے ہاں پہنچتی ہے( القرآن) گویا عید الاضحی کے دن کروڑوں مسلمان اجتماعی طور پر قربانی کے ذریعے اپنے جذبات خدا تک پہنچانے کی سعی اور کوشش کرتے ہیں، عید الاضحی کے دن اللہ تعالی کے یہاں بندوں کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل قربانی ہوتا ہے ( ترمذی ابن ماجہ حاکم )

قربانی کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے گذشتہ تمام امتوں میں قربانی کو مقرر فرمایا، ارشاد باری تعالی ہے: اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کی تھی تاکہ اللہ تعالی نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں اس پر اللہ کا نام یاد کیا کریں( القرآن ) قربانی گذشتہ تمام امتوں اور انبیاء کی سنت ہونے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ابراہیم علیہ السلام کا مبارک طریقہ ہے جس کا ذکر توراۃ کے علاوہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے، حضرت ابراہیم کو یہودی اور عیسائ بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں لیکن ان کی اس عظیم یاد گار کو گذشتہ چودہ سو سالوں سے مسلمان قوم نے زندہ رکھا ہوا ہے، خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ھجرت کے بعد دس سال بلا ناغہ قربانی کا اہتمام فرمایا ہر سال عمدہ صحت مند اور بے عیب جانور عید کی نماز کے بعد ذبح فرماتے اور صحابہ اس کا مشاہدہ کرتے، عید الفطر کے دن عید کی نماز سے قبل میٹھا تناول فرماتے لیکن عید الاضحی کے دن قربانی کے گوشت سے قبل کچھ تناول نہیں فرماتے۔

[pullquote]قربانی کا حکم :
[/pullquote]

ربیعۃ، امام اوزاعی، ثوری،لیث بن سعد، نخعی اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے یہاں ہر مسلمان عاقل بالغ صاحب نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے جبکہ دیگر فقہاء نے قربانی کو سنت موکدہ میں شمار کیا ہے(شرح النووی/ مغنی لابن قدامۃ)،

مجاہد، مکحول اور شعبی رحمہم اللہ بھی وجوب قربانی کے قائل ہیں ( محلی ابن حزم)، امام احمد کے ایک قول اورامام مالک کے ایک قول یا ان کے ظاہر مذہب کے مطابق قربانی واجب ہے, (مجموع الفتاوی)

یہ بات ملحوظ نظر رکھنی چاہئیے کہ جو فقہاء کرام قربانی کو سنت موکدہ کہتے ہیں ان کے یہاں قدرت رکھنے کے باوجود قربانی ترک کرنا قابل ملامت عمل ہے۔ امام مالک رح فرماتے ہیں : وَقَالَ مَالك: لَا يَتْرُكهَا فَإِن تَركهَا بئس مَا صنع إلاَّ أَن يكون لَهُ عذر، ترجمہ: جس نے بلا عذر قربانی ترک کی اس نے برا عمل سر انجام دیا (عمدۃ القاری)۔

بعض معاصر اہل علم نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ قربانی صرف امام ابوحنیفہ رح کے یہاں واجب ہے اور ان کا مسلک کمزور ہے، امام صاحب رح کے مسلک کو ان کے بیان کردہ دلائل سے تو باسانی بیان کیا جاسکتا ہےاور علماء کرام بیان بھی کرتے ہیں لیکن ہم اس مسئلہ میں سب سے ہہلے غیر حنفی امام کا موقف پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں اور وہ شخصیت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح کی ہے، آپ خود غیر حنفی ہونے کے باوجود امام ابو حنیفہ کے مسلک کو نہ صرف درست سمجھتے ہیں بلکہ فریق آخر کے مسلک کو کمزور قرار دیتے ہیں ،

طوالت سے بچتے ہوئے مختصرا امام ابن تیمیہ کا موقف ان کی مشہور کتاب مجموع الفتاوی سے پیش کیا جاتا ہے، فرماتے ہیں :

"بہت زیادہ ظاہر اور واضح بات یہ ہے کہ قربانی واجب ہے، وجوب قربانی کی نفی کرنے والوں کے پاس کسی قسم کی نص (دلیل) موجود نہیں، ان کے پاس صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ بھی کمزور، یہ حضرات اس حدیث سے استلال کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص قربانی کا ارادہ کرے وہ ذوالحجہ کے شروع ہونے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹے، اس حدیث میں قربانی کو ارادہ کے ساتھ معلق کیا گیا ہے جبکہ واجب کو ارادہ کے ساتھ معلق نہیں کیا جاتا، (امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ) یہ دلیل دو وجوہات کی بنا پر کمزور ہے، پہلی وجہ یہ کہ واجب کو بھی ارادے کے ساتھ معلق کیا جاتا ہے، مثلا قرآن میں ہے جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اپنا چہرہ دھو (یعنی وضو کرو) اور نماز فرض ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ قربانی قدرت رکھنے والے شخص پر واجب ہے جس طرح حج صرف قدرت رکھنے والوں پر فرض ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ نے حج کو بھی ارادہ کے ساتھ معلق کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ، من اداد الحج فليعجل، جو شخص حج کا ارادہ کرے وہ جلدی کرے” (مجموع الفتاوی)

[pullquote]وجوب قربانی کی دلیل :
[/pullquote]

فصل لربك و انحر، ترجمہ: پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھئیے اور قربانی کیجئیے (القرآن)

قرآن کی اس آیت کریمہ میں ” انحر” صیغہ امر ہے جس میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے اور امر وجوب کے لیے آتا ہے، حیرت ہوتی ہے کہ فقہاء کرام کے اصول اجتہاد سے واقفیت کے باوجود بعض معاصر دیدہ و دانستہ فقہ حنفی کی مکمل حقیقت بھی بیان نہیں کرتے بلکہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ "انحر” کی تفسیر میں دیگر اقوال نقل کئے گئے ہیں جس سے قربانی کا وجوب ثابت کرنا کمزور بات ہے۔

عرض ہے کہ "انحر” (قربانی کریں) میں دیگر اقوال کے ساتھ قربانی کرنے کا قول بھی صحابہ کرام اور تابعین سے منقول ہے حافظ ابن کثیر رح نے وہ تمام اقوال ذکر کرنے کے بعد فرمایا :كل هذه الأقوال غريبة جدا والصحيح القول الأول ، أن المراد بالنحر ذبح المناسك ; ولهذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العيد ثم ينحر نسكه ( تفسیر ابن کثیر )

ترجمہ : یہ تمام اقوال بہت زیادہ غریب ہیں، صحیح اور درست قول یہ ہے کہ نحر سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی قربانی ذبح فرماتے تھے۔

حافظ ابن کثیر رح نحر سے مراد عید کی قربانی کو صحیح قول قراد دیتے ہیں اور یہی قول ابن عباس عطاء ابراہیم عکرمہ مجاہد اور حسن سے روایت کرتے ہیں۔( ابن کثیر)۔

مزید یہ کہ "انحر” امر ہے اور امر وجوب کے لیے آتا ہے، لیکن چونکہ انحر کی تفسیر میں

دیگر اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی دلالت میں ظنیت پیدا ہوگئ

اور امام ابو حنیفہ رح کے اصول اجتھاد کے مطابق دلیل ظنی وجوب کا فائدہ دیتی ہے، کم از کم اسی پر غور فرما لیا ہوتا کہ اگر "انحر” ( قربانی کیجئے) میں دیگر اقوال نہ ہوتے اور صرف ایک ہی قول قربانی کا ہوتا تو قطعی الدلالت ہونے کی وجہ سے قربانی کی فرضیت ثابت ہوجاتی۔

[pullquote]وجوب قربانی کی دلیل :
[/pullquote]

من كان له سعة و لم يضح فلا يقربن مصلانا، ترجمہ : جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ( ابن ماجہ/ احمد / ابن ابی شیبہ)۔

وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید بیان فرمائ ہے اور اس قسم کی وعید ترک واجب پر بیان ہوتی ہے۔ اس حدیث پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ موقوف ہے ، لیکن یہ اعتراض اس لیے درست نہیں کہ محدثین کے یہاں رفع کی زیادتی ثقہ راویوں سے قبول کی جاتی ہے، ہوسکتا ہے ابو ہریرۃ نے ایک دفعہ مرفوعا روایت کی ہو اور دوسری مرتبہ اس پر فتوی دیا ہو، ان کے شاگرد اعرج نے ان سے دونوں طرح سنا اور دونوں طرح روایت کیا، پھر اعرج کے شاگرد عبداللہ ابن عیاش نے ان سے مرفوعا اور موقوفا سن کر دونوں طرح روایت کیا، اور ان سے جعفر وغیرہ نے ایک ہی طرح سن کر آگے ایک ہی طرح روایت کیا،

بہر حال اگر اس روایت کو موقوف بھی مان لیا جائے تب بھی یہ مرفوع کے حکم میں ہوگی اس لیے کہ صحابی رسول کا فتوی ایسے مسائل میں اپنی رائے سے نہیں ہوتا خاص طور پر جب وعید بھی اتنی سخت ہو کہ عید گاہ میں جانے سے روکا جا رہا ہو،

[pullquote]معاصر اہل علم کی طرف سے حضرت بلال رض کا یہ اثر پیش کیا جاتا ہے:
[/pullquote]

” مجھے کوئ پروا نہیں کی میں مرغی کی قربانی کروں، اس کی قیمت کو یتیم یا مسکین پر خرچ کرنا مجھے قربانی سے زیادہ پسندیدہ ہے”۔
اس قول سے استدلال اس لیے درست نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا:

"قربانی کے دن اللہ کو ابن آدم کا قربانی کا خون بہانا سب سے زیادہ پسند ہے( ترمذی /ابن ماجہ)

ایک روایت میں فرمایا کہ قربانی سنت ابراہیم ہے، ہر بال کے مقابلہ ایک نیکی ملتی ہے، صحابہ نے اون کے بارے میں پوچھا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر اون کے بال پر بھی ایک نیکی ملتی ہے ( احمد/ ابن ماجہ )

ان اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں قول صحابی میں تاویل کی جائگی لیکن قول رسول کو ترک نہیں کیا جائگا۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت بلال پر قربانی واجب نہ ہو اور یہ بات قرین قیاس اس لیے بھی ہے کہ وہ مرغی کی قربانی کا ذکر کر رہے ہیں، قربانی کے جانوروں کا ذکر نہیں فرما رہے۔

[pullquote]فیملی کی طرف سے ایک قربانی :
[/pullquote]

امام ابو حنیفہ رح اور امام شافعی رح کے یہاں ایک بکری میں ایک سے زائد افراد شریک نہیں ہوسکتے، دونوں حضرات کی دلیل یہ روایت ہے: ابن عباس رض فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کہ اس پر اونٹ کی قربانی واجب ہے لیکن اونٹ دستیاب نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سات بکریاں خرید کر ذبح کردو، (احمد /ابن ماجہ/ قال الشوكاني رواته ثقات)
بغیر کسی قیاس کے اس حدیث سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ایک اونٹ سات بکریوں کے برابر ہے اور اونٹ میں سات افراد شریک ہوتے ہیں لہذا ایک بکری میں ایک سے زائد افراد کی شرکت جائز نہیں، اگر ایک بکری میں پوری فیملی کی شرکت کو جائز قرار دیا جائے تو ایک اونٹ جو ( بموجب حدیث ) سات بکریوں کے برابر ہے اس میں سات فیملیوں کی قربانی کو جائز ہونا چاہئیے۔

بعض حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کی ایک بکری میں پوری فیملی شریک ہوسکتی ہے :

"ہر گھر کے رہنے والوں پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ ( وہ جانور جو رجب کے مہینہ میں ذبح کیا جاتا ) واجب ہے” ( ترمذي)

[pullquote](نوٹ) [/pullquote]عتیرہ کی قربانی ابتدا میں تھی منسوخ ہوگئ اب مسلمان نہیں کرتے، عام مسلمانوں کو تو عتیرہ کا معنی بھی نہیں معلوم !

اس روایت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر گھر میں چھ سات بالغ افراد پر قربانی واجب ہو تو ایک بکری کی قربانی دی جانے سے سب کی قربانی ہوجائے گی، بلکہ اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بکری کی کے ثواب میں پوری فیملی کو شریک کیا جا سکتا ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کے ثواب میں پوری امت کو شریک فرمایا، حضرت عائشہ رض فرماتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کرتے وقت یہ کلمات پڑھیں : بسم الله اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به ، ترجمہ : اللہ کے نام پر، اے اللہ اس قربانی کو محمد، ال محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما (مسلم) ثواب میں شرکت کی صورت میں اس باب کی تمام احادیث میں تطبیق پیدا ہوجاتی ہے اور یہ احناف کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ متعارض احادیث میں تطبیق کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،

اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ابو سریحہ فرماتے ہیں کہ میں تو سنت کو جانتا ہوں، ( یعنی ہر شخص پر صرف اپنی قربانی واجب ہے ) لیکن میرے گھر والوں نے مجھے مشقت میں ڈال دیا ہے۔ پہلے دور میں گھر والے ایک یا دو بکریوں کی قربانی کو کافی سمجھا کرتے تھے، لیکن اب ہمارے پڑوسی ( ایک قربانی پر ) ہمیں کنجوسی کا طعنہ دیتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

ابو سریحہ کی روایت پر اگر غور کیا جائے تو یہ احناف کے حق میں دلیل ہے ان کے خلاف نہیں، اس لیے کہ قربانی صرف قدرت رکھنے والے پر اپنی طرف سے واجب ہوتی ہے بیوی اور اولاد کی طرف سے واجب نہیں ہوتی، یہی بات ابو سریحہ فرما رہیے ہیں کہ پہلے زمانے میں ہر شخص اپنی طرف سے قربانی کرتا بچوں کی طرف سے قربانی نہیں کیا کرتا تھا ( کیونکہ بچوں پر قربانی واجب نہیں ہے اور اب لوگ تفاخرا بچوں کی قربانیاں بھی کرنے لگے ہیں۔

دوسری بات یہ بھی اہم ہے کہ ابو سریحہ فرما رہے ہیں کہ پہلے لوگ ایک یا دو بکریوں کی قربانی کیا کرتے تھے، اگر ایک بکری کی قربانی پورے گھرانے کے لیے کفایت کرتی ہے تو دو قربانیاں کیوں کی جاتی تھیں؟ جبکہ ابتداء میں غربت بھی بہت زیادہ تھی ، اس سے تو یہ معلوم ہورہا کہ عہد رسالت میں بسا اوقات گھر کے کسی ایک فرد مثلا شوہر پر قربانی واجب ہوتی اور بیوی پر نہیں ہوتی تو وہ شخص صرف اپنی قربانی کرتا، اور کبھی شوہر اور بیوی دونوں پر قربانی واجب ہوتی تو وہ دونوں قربانی کیا کرتے تھے، بچوں پر قربانی واجب نہیں اسلیے ان کی قربانی نہیں کرتے تھے۔

[pullquote]شبہ:
[/pullquote]

بعض صحابہ مثلا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دو سال قربانی کی مستقلا نہیں کی اس سے بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا کہ صحابہ کرام قربانی کو واجب نہیں سمجھتے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان صحابہ کا قربانی نہ کرنا ان پر قربانی واجب نہ ہونے کی بنا پر تھا، قربانی سب پر واجب نہیں ہوتی بلکہ صرف ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو صاحب نصاب ہو یا ضرورت سے زیادہ بقدر نصاب مال کے مالک ہو، ملا علی قاری فرماتے ہیں : وَفِيهِ أَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّهُمَا ( ابوبکر و عمر) مَا كَانَا مِنْ أَهْلِ الْوُجُوْبِ (مرقاۃ) ترجمہ : یہ اس پر محمول ہے کہ حضرت ابوبکر رض اور حضرت عمر رض دونوں پر قربانی واجب نہیں تھی۔

امام عطاءاللہ خان معروف اسکالر، خطیب وامام ہیں. جامعہ فاروقیہ کراچی میں طویل عرصہ تدریس اور مکہ مسجد محمد علی سوسائٹی کراچی میں امام وخطیب رہے۔کراچی کے چیدہ خطیبوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔پھر والد مولانا عنایت اللہ خان شہید (نائب شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی) کی شہادت کے بعد انگلیند کوچ کرگئے۔اب تک وہیں امامت وخطابت اور درس وتدریس میں مصروف ہیں .[pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے