ہمارے طالب علم!!!

طالب علم کو معاشرے کے مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی معاشرے کی عمارت اس کے طالب علموں پر کھڑی ہوتی ہے۔کیونکہ آج جس پیشے میں جو کوئی بھی کام کر رہا ہے کل اس کی جگہ کسی طالب علم ہی کو لینی ہوتی ہے۔ مگر ہمارے طالب علم تو بیچارے علم سے دور دور رہنا ہی پسند فرماتے ہیں۔ کچھ علم کے قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں ہمارا تعلیمی نظام علم کی طرف سے دھکا دے دیتا ہے۔ خیر آج ہم تعلیمی نظام کی بات نہیں کر رہے بلکہ آج کچھ باتیں ہمارے طالب علموں کی ہوجائے۔

ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر جامعات آنے والے طالب علموں میں تین قسمیں نظر آتی ہیں ۔ بات جامعات کی اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ یہاں سے وہ علم فراہم کرنے کا دعوہ کیا جاتا ہے جو آگے "پروفیشنل لائف” میں کام آتا ہے۔

پہلی قسم میں جو علم کے طلب گار ڈالے گئے ہیں وہ ایک بہت گہری سوچ رکھتے ہیں۔ ان کو اپنے مستقبل کی اس قدر فکر ہوتی ہے کہ واضع نظر بھی آتا ہے۔ یہ راہ ِعلم پر گامزن ہوتے ہیں تاکہ اپنی عائلی زندگی کو ابھی سے خوشگوار بنا سکیں۔اس کی پلاننگ کے لیے انھیں یونیورسٹی سے زیادہ سنہری موقع اور کہیں نظر نہیں آتا۔اس لیے یہاں آکے کسی نیم کے ٹھنڈے سائے دار درخت کے تلے اپنے پلان کو پائے تکمیل تک پہچانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔اور بلآخر اس منصوبے میں مسلسل کوئی پندرہ بیس دفعہ ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں ۔ پھر خیال آتا ہے کہ کاش پڑھائی کرتے تو نہ صرف یہ منصوبہ پورا ہوتا بلکہ ہر قدم پر کامیابی بھی ملتی۔

آئیے آپ کو اب ہونہار طالب علم سے ملواتے ہیں ان کا بس ایک ہی مقصد ِزیست ہے کہ ان کو کوئی نوکری مل جائے۔ نوکری تلاش کرنےکے لیے یہ علم کہ راہ پکرتے ہیں۔ اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کو لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگاتے ہیں۔ علم ملے نہ ملے، بس نوکری ملنی چاہئیے۔ان کی مثال طوطے جیسی ہوتی ہے کہ بس جو کچھ انھیں پڑھا یا گیا ہے وہ انکے ذہن میں ا سی طرح رٹا ہوا ہونا چاہیے تاکہ مارکس اچھے ملے اور ڈگری حاصل کرلی جائے۔ یہ بیچارہ اس بات سے غافل رہتا ہے کہ رٹنے سے علم نہیں ملتا ۔ ہوسکتا ہے نوکری مل جائے مگر علم سے وابستہ نہیں ہوسکے گا۔

اب اپنے تیسرے اور آخری طالب علم سے ملاقات کی باری آتی ہے۔یہ وہ طالب علم ہے جو آج کل چراغ کیا، فلیش لائٹ کی روشنی میں بھی نہیں ملتا ۔ یہ وہ شاگرد ہے جو اپنے استاد سے کبھی اچھی کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف علم کا طلب گار ہوتا ہے۔ اسے علم کی پیاس ہوتی ہے۔ اپنی تشنگی مٹانا چاہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی کوئی کتاب سے پیاس مٹنے لگے تو اسے دوسری کتاب کی چاہ ستانے لگتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ علم سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ کتاب سے اچھا کوئی دوست نہیں ۔ علم مل گیا تو سب کچھ مل گیا علم نہیں ملا تو کچھ نہیں ملا۔مستقبل کااصل معمار یہ ہی طلب گارِ علم ہے۔

آج پہلی اور دوسری قسم کے طالب علم تو بہت مل جاتے ہیں مگر اصل طالب علم نہیں ملتا۔ علم کسی بھی قوم کی ترقی کا راز ہوتا ہے۔ اور نو جوان و طالب علم ترقی کی طرف گامزن کارواں کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔اپنی عمارت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے معماروں کو علم کی طرف آنا ہوگا۔ طالب علموں !!! علم حاصل کرو، ڈگری کے نام پہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے