زندگی میں اگرماں کی کمی ہو تو خوشی کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا، مائیں تو اپنی اولاد کو زمانے کی دھوپ سے بچا کر پالتی ہیں . عید کے موقع پر میں پشاور کے اولڈ ہوم میں گئی . اس اولڈ ہوم ایسی بدقسمت مایئں بھی رہتی ہیں جنھیں اپنے ہی جگر کے ٹکروں نے گھر سے نکالا اورایدھی ہوم میں چھوڑدیا . ان ماوں کی پرنم آنکھیں پر عید پراپنوں کی راہ تکتی رہتی ہیں . اس عیدپربھی انہیں امید تھی کہ شاید ماں کا لال اس بار آئےگا ،گلے سے لگائے گا اورعید کی خوشیاں بانٹےگا مگربوڑھی ماں کی امیدیں بھرنہ آسکیں .
پشاورکے اولڈ ہوم میں بیس سے زائد خواتین رہتی ہیں جن میں سے زیادہ ترکا تعلق پشاورسے ہے ،بی بی ارباب بھی ان میں سے ایک ہیں جو گزشتہ 6سال سے یہاں رہتی ہیں ،شوہر کے مرنے کے بعد اولاد علاج کا کہہ کر اسے ایدھی ہوم لے آئی اورپھر کبھی کوئی رابطہ کرنے کی زحمت نہیں کی ، بوڑھی ماں کہتی ہے کہ جو نمبر دیا تھا بیٹے نے وہ بھی بند رہتا ہے ، بچوں کی یاد بہت آتی ہے مگر نہ جانے کیوں میرا بیٹا مجھے ملنے نہیں آتا.
اس آشيانےمیں بے آسراخواتین کے ساتھ بچے بھی موجود ہیں ،اگرچہ عيد پربھي اپنوں کے ساتھ خوشياں منانا نصيب نہ ہوسکيں ،اپنوں نے منہ موڑ ليا تو انہوں نے آپس ميں خوشياں بانٹنے لگے ، معمرخاتون بتاتی ہے کہ میراتو کوئی نہیں بس یہ یتیم بچے ہی میرا سب کچھ ہیں انہیں ہنستا کھیلتا دیکھ کر دل بہل جاتا ہے
اولاد کی بے رخی کی ماری مايئں ہر لمحہ گھٹ گھٹ کے مررہی ہیں ،دھندلائی آنکھوں میں اپنے پیاروں سے ہزارشکوے و گلے مگردل میں پھربھی اولاد کے لئے پیارسمیٹے ہوئے ہیں ،کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے .اس کے لبوں پرصرف دعايئں ہی ہيں. اولڈ ہوم کی ایک ضعیف خاتون نے بتایا کہ بس ایک خواہش رہ گئی ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے بچوں کو دیکھ لوں.