ہائے میرا بچہ !

ہائے امی ، ہائے امی مجھ سے چلا نہیں جارہا ۔ بیگم صاحبہ کی بیٹی حریم روتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی جس کے پاوْں پر گلی میں بچوں سے کھیلتے ہوئے معمولی چوٹ آگئی تھی ۔ شیداں نے حریم کو مرہم پٹی تو کردی لیکن بیگم صاحبہ بیٹی کو لے کر شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کیلئے لے گئیں ۔بیگم صاحبہ حریم کو لے کر جب واپس گھر آئیں تو شیداں برتن صاف کر رہی تھی ۔ برتن صاف کرتے کرتے اُس سےگلاس ٹوٹ گیا تو بیگم صاحبہ بولیں
تم تو ہو ہی پھو ہڑ ،، تمہاری آنکھیں نہیں یا تمہارے ہاتھ ٹوٹ گیا ہیں ؟

شیداں نے معاف کردو بیگم صاحبہ کی رٹ لگائی ہوئی تھی ۔بیگم صاحبہ نے تنز وتنقید کے وہ تیر چلائے جو شیداں کے جذبات اور احساسات کو چھلنی کر گئے اور اُن القابات سے شیداں کو نوازا جس کے معنی ومفہوم سے بھی وہ آ گاہ بھی نہیں تھی ۔

شیداں پچھلے پانچ سال سے بیگم صاحبہ کے ہاں کام کرتی آرہی تھیں ۔ بچاری کو گھر کے کاموں کے علاوہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی اور معاوضہ اتنا کم کہ بمشکل دو وقت کی روٹی میسر آسکے ۔

ایک دن ہوا میں خنکی تھی آسمان پر گہرئے بادل چھائے ہوئے تھے تو شیداں نے آج جلد ہی اپنے گھر کا راہ لی ۔ یونہی شیداں گھر میں داخل ہوئی تو اُس کے پسینے ہی چھوٹ گئے ، ہاتھ پاوْں دو منٹ کیلئے ساکت ہوگئے ، چہرہ فق پڑگیا ۔ شیداں کے 5 سال کے اکلوتے بیٹے دینے کو سانپ نے ڈس لیا تھا جو ایک کچے کمرے کے گھر میں تڑپ رہا تھا ۔

رمضے اور شیداں کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ علاقے میں شاید ہی کوئی ایسا دربار ہو جدھر شیداں حُصول اُولاد کیلئے جاکر منتیں نہ مانگ کر آئی ہو ۔کبھی باہو سلطان دربار کے احاطہ میں واقع بیر کے درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر اس کے اُوپر پتے گرنے کی انتظار میں کئی کئی دن وہاں بیٹھی رہتی ۔ بچاری شیداں کبھی کسی پیر وفقیر کے کہنے پر چاند کی ہر گیارہ تاریخ کو محلے کے بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتی تھیں ۔شیداں نے حُصول اُولاد کیلئے ہر جتن کیا لیکن آخر کار ناامید ہوکر گھر بیٹھ گئیں ۔ اس کے 6 سال بعد اللہ تبارک تعالیٰ نے شیداں کو دین محمد کی صورت میں اُولاد کی نعمت سے نوازا ۔

آج وہی دینا اپنی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا ۔ رمضا اور شیداں اپنے لاڈلے کو لے کر سر کاری ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نےپولیو ڈے کا بہانہ بنا کر علاج کرنے سے انکار کردیا ۔ یہ غریب اپنے لال کو لے کر شہر کی جانب چل دیے ۔ دینا اس طرح تڑپ رہا تھا جیسا مچھلی کم پانی میں تڑپتی ہے ۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد شیداں اور رمضا ایک پرائیوٹ ہسپتال کے گیٹ پر پہنچے ۔ پہلے تو گارڈز نے ان کا حلیہ دیکھ کر ان کو اندر جانے سے روک دیا ۔ لیکن منت سماجت کے بعد جب ہسپتال کے اندر جانے دیا تو پرچی دینے والے نے علاج کیلئے دس ہزار روپے کا مطالبہ کردیا ۔

جن لوگوں کو دو وقت کی روٹی بمشکل میسر ہوتی ہو اُن کیلئے دس ہزار روپے اکٹھے کرنا صرف ایک خواب ہی ہوسکتا تھا ۔ رمضا بیگم صاحبہ سے بہت ساری توْْْْقعات لگا کر اُن کے گھر کی طرف بھاگا ۔ اُدھر بیگم صاحبہ چیریٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرکے ابھی گھر پہنچی ہی تھیں ۔نجانے کتنی احدایث اور تاریخ واقعات کو بیگم صاحبہ نے کوڈ کرکے خیرات کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔ بیگم صاحبہ نے بھوک کی وجہ سے تھر میں بچوں کی ہلاکت پر حکمرانوں کو بے حس ظالم کے خطاب عطا کیا ۔

رمضے نے بیگم صاحبہ کو اپنی داستان سنا کر دس ہزار کی فریاد کی تو بیگم صاحبہ غصہ میں آ گئیں اور بولیں
تم لوگوں کوتو بھیک مانگنا کا کوئی بہانہ چاہیے .

رمضا اپنا سا منہ لے کر واپس چل دیا ،ہسپتال پہنچ تو رمضے کے جسم سے جان ہی نکل گئی وہ شاک رہ گیا کہ اُن کےلخت جگر کی روح پرواز کرچکی تھی ۔ شیداں اپنی ہوش کھو چکی تھیں اور اس کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ تھا

ہائے میرا بچہ ، ہائے میرا بچہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے