عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا!

مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے علاقے اُڑی میں واقع بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر گزشتہ دن ہونے والے مہلک حملے کے بعد دانشِ مستعار سے مَس رکھنے والے ایک قلیل مگر مقتدر حلقے میں ایک بار پھر اس سوال کی جگالی کی جا رہی ہے کہ مسلح جد و جہد مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں ممد و معاون ہے یا رکاوٹ؟ اس حلقے کے دماغ کے ننھے سے کٹورے میں یہ خیال کائی کی طرح جما ہوا ہے کہ ایسے ہلاکت خیز حملوں سے کشمیر کاز کمزور ہوجائے گا، یہ حملے کرنے والے اور ان کے سرپرست کشمیریوں کی راہ کھوٹی کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ کشمیریوں کے نادان دوست ہیں۔ ان روشن دماغوں کا خیال ہے مسلح جد و جہد کی بجائے ”پرامن جد و جہد” کا راستہ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف جاتا ہے۔

بہت ہی پیاری بات اور نہایت پر امن خیال ہے اگر مغالطوں اور بلا کی خوش فہمیوں کا لیموں نہ نچوڑا گیا ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال در اصل اس پروپیگنڈے کے بطن سے بر آمد ہوا ہے کہ کشمیر میں جاری مسلح جد و جہد خارجی اور بیرونی محرکات کے زیر اثر ہے، فرزندان زمین کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، باہر کے وہ لوگ جو اہل کشمیر سے کچھ زیادہ ہی محبت کے دام میں گرفتار ہیں، وہی دراندازی کر رہے ہیں اور اپنی نادانی، جہالت اور بے شعوری سے الٹا اہل کشمیر کا مقدمہ خراب کرکے ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ بھارت کا پرو پیگنڈا ہے اور اس کی سحر کاری ہے۔ دنیا کی تمام استعماری اور سامراجی قوتوں کا یہی وتیرہ ہے کہ غلامی کے پنجرے میں آزادی کے لیے پھڑپھڑانے والے متوالوں کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے، جس کا مقصد حریت پسندوں کا حوصلہ توڑنا ہوتا ہے۔ یہ وہ ظالمانہ ساحری ہے، جس کے دام تزویر میں دنیا بہ آسانی آجاتی ہے۔

حضرت علامہ کے بقول
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

بھارت سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہو سکتا ہے کہ کشمیر میں وقفے وقفے سے اٹھنے والا اضطراب سراسر مقامی ٹیکسال میں ڈھلا ہوا زر خالص ہے، اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے، کسی بیرونی عنصر کی آمیزش نہیں ہے۔ کشمیر کی مسلح جد و جہد کے بارے میں یہ کنفیوژن در اصل اس مفروضے کا شاخسانہ ہے کہ کشمیریوں کو اکسانے والا پاکستان ہے، جو بھارت کونیچا دکھانے اور اسے کشمیر میں مصروف رکھنے کے لیے وہاں بغاوت کو مختلف صورتوں میں تحریک دیتا رہتا ہے۔ یہ خیال پیش کرنے والے شاید کشمیریوں کی جد و جہد آزادی کی تاریخ سے نا بلد ہیں یا جانتے بوجھتے اغماض برت رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں ”قبضے” اور ”جبر” کے خلاف جد و جہد کی تاریخ 1947ء کی تقسیم ہند سے شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو یقینا وہ حق بجانب ہوتے، مگر صورتحال ذرا مختلف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جموں و کشمیر کے مشرقی حصے پر بھارت کا تسلط تقسیم ہند کے بعد ہی شروع ہوا۔ اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ تسلط اہل کشمیر کی رائے اور مرضی کے خلاف تھا اور ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے پہلے کشمیری عوام آزاد و خود مختار تھے، وہاں عوام کی مرضی کی حکومت قائم تھی اور کشمیری عوام کی اکثریت ریاستی راج سے مطمئن تھی۔

بھارت کے تسلط سے پہلے کشمیر کے عوام پر ڈوگرا شاہی کی مقتدر اقلیت مسلط تھی۔ ڈوگروں نے اہل کشمیر پر تسلط 1846ء میں معاہدہ امرت سر کے ذریعے انگریزوں سے نہایت سستے داموں خرید کیا تھا۔ ڈوگروں کا یہ تسلط بھی دراصل ایک قبضہ تھا، جو فرزندان زمین کی مرضی کے بر خلاف ان پر جاری ہوگیا۔ حریت پسند کشمیریوں نے آج کے برہمن راج اور فرنگی استعمار کے تسلط کی طرح ڈوگرا شاہی کو بھی قبول کرنا کبھی گوارا نہ کیا۔ ڈوگرا عہد کا ایک ایک لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بدترین مظالم کے باوجود کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرا تسلط کو تسلیم نہیں کیا۔ 1929ء میں چودھری غلام عباس کی قیادت میں وادی کے کونے کونے میں اٹھنے والی بغاوت کی اس عظیم تحریک کو کون فراموش کر سکتا ہے، جس میں کشمیر کا ہر پیر و جوان، بچہ اور خاتون جذبہ جہاد سے سرشار جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈوگرا شاہی کے مقابل آگیا تھا۔ ایک آگ تھی، جس نے پوری وادی کو شعلہ بہ داماں کر دیا تھا۔ اسی تحریک کے دوران 1931ء میں کاز اور نظریے کے ساتھ کمٹمنٹ کا وہ محیر العقول واقعہ رونما ہوا، جس کی نظیر دنیا کی کوئی اور قوم پیش کرنے سے قاصر ہے، جب سری نگر میں ڈوگرا فوج کی سنگینوں کے سائے میں 22مسلمانوں نے خود کو خاک و خوں میں تڑپا کر اذان مکمل کی۔ کیا اس وقت بھی اہل کشمیر کو جان جوکھم میں ڈالنے کے لیے کوئی بیرونی قوت محرکہ اکسا رہی تھی؟ یا اس وقت بھی یہ جذبہ پاکستان Bluetooth کر رہا تھا؟ انصاف کی بات یہ ہے کہ کشمیریوں کی خالص مقامی اور اندرونی تحریک کو بیرونی عنصر سے جوڑنا ان کے جذبہ حریت کی سخت توہین ہے۔

کشمیریوں کی جد و جہد اگر خارجی عوامل کے زیراثر ہوتی اور فرزندان زمین اس سے قطعی لا تعلق ہوتے، تو یہ کبھی قبولیت عامہ نہیں حاصل کر پاتی۔ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ مسلح جد و جہد کشمیر کاز کو نقصان پہنچا اور کشمیریوں کے لیے مسائل کا سبب بن رہی ہے، ہمارا نہیں خود کشمیریوں کا اختیار ہے۔وہی صاحب معاملہ ہیں، وہی اس بات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ سات دہائیوں کی بات ایک طرف رکھیے، گزشتہ دو ماہ سے پوری مقبوضہ وادی میں جو ہیجان برپا ہے، مسلسل کرفیو کے باوجود کشمیری مسلمان جان کی پروا کیے بغیر دیوانہ وار سینہ تان کر سڑکوں پر آتے ہیں اور شہداء کی میتوں کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر نماز جنازہ ادا کرتے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ کیا گزشتہ دو ماہ سے جاری یہ صورتحال مسلح جد و جہد کے ایک ہر دلعزیز رہنما کی شہادت سے منسلک نہیں ہے؟ کیا یہ اس بات کا غماز نہیں کہ مسلح جد و جہد کشمیریوں کا اپنا شعوری انتخاب ہے؟

رہی یہ بات کہ مسلح جد و جہد سے آزادی کی منزل حاصل نہیں کی جاسکتی، یہ واقعاتی شواہد کے سراسر منافی ہے۔ استعماری (Colonial) دور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سامراج کا دماغ ہمیشہ ڈنڈے کی ضرب سے ہی درست ہوا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ لاطینی امریکا، افریقہ اور ایشیا میں گھس آنے والی بدیشی طاقتوں کے خلاف جبراً محکوم بنائی گئی قوموں نے اپنی آزادی کا فیصلہ بندوق کی سنگینوں سے ہی رقم کیا ہے۔ خود بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جد و جہد کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کشمیر میں مسلح جد و جہد شروع ہی تب ہوئی جب 1947ء سے 1990ء تک طویل ”پر امن جد و جہد” سے منزل کا کوئی نشان نظر آتا محسوس نہ ہوا۔ یہ مسلح جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ اقوام عالم کو احساس ہوا کہ کشمیر میں کوئی انسانی اضطراب ہلکورے لے رہا ہے۔ ”پرامن جد و جہد” سے منزل کا حصول اس قدر آسان ہوتا تو مرحوم یاسر عرفات کندھے سے بندوق اتار کر شاخِ زیتون لہرانے کے بعد اپنی قوم کو آزادی دلوا چکے ہوتے۔ حقیقت یہی ہے کہ

عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
باقی سب کہانیاں ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے