پاکستانی پختون کا المیہ

مہمند ایجنسی کی گل مسجد میں اللہ اکبر کی آواز گونجتی ہے ۔ ساتھ ہی دھماکہ ہوتا ہے اور لوگ سجدے میں گرنے کی بجائے مسجد کے صحن میں گرتے ہیں ۔ ہر طرف خون ہی خون بکھر جاتا ہے ۔ چیخ و پکار کی آوازیں آتی ہیں ۔ چند لمحے پہلے اللہ کے حضور سجدے میں گرنے والوں کے سر تن سے جدا ہو کر ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں ۔ لیکن یہ آوازیں کراچی کے ایک سیاستدان کو گرفتار کرنے کی آوازوں میں دب جاتی ہیں ۔ تیس لاشوں پر ایک سیاستدان کی عارضی گرفتاری بازی لے جاتی ہے ۔ میڈیا چینلز کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اشتہاروں کی کمائی بڑھنا شروع ہوتی ہے ۔ جو بکتا ہے وہ چلتا ہے کے اصول کے تحت گھنٹوں تک ٹی وی کی سکرین پر خواجہ اظہارالحسن ، راو انوار اور بکتر بند گاڑی چھا جاتی ہے ۔ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار گرفتاری پر پرزور انداز میں اپنا مدلل تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم جناب نواز شریف صا حب بھی پریشانی کے عالم میں سندھ حکومت سے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاستدان بغیر وارنٹ گرفتاری کے اپنے مذمتی بیان دیتے ہیں (یاد رہے کہ یہی پارٹیاں جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کرچند دن پہلے الطاف حسین کے بیان کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف سخت ایکشن لینے کے لئے قراردادیں پیش کر رہی تھیں)۔آخر اس سارے عمل کے نتیجے میں مہمند ایجنسی کی تیس لاشیں ہار جاتی ہیں ۔ اور میڈیا جیت جاتا ہے ۔ راو انوار معطل ہوتے ہیں اور خواجہ اظہارالحسن رہا ہوتے ہیں ۔

پھر اچانک ہمارے جادوئی میڈیا کو خیال آتا ہے کہ کراچی کا سودا تو بیچ دیا ۔ لیکن تیس لاشیں تو ابھی بھی باقی ہیں ۔ لیکن اب وقت گزر جاتا ہے ۔ لیکن نہیں نہیں ۔ ابھی کہاں ۔ ہمارے پاس اخبارات بھی تو ہیں ۔ ایڈیٹرز کا مباحثہ ہوتا ہے ۔ کہ کل کے اخبارکی لیڈ سٹوری کیا ہو ایک طرف سیاستدان کی گرفتاری ہے اور دوسری طرف مسجد میں بے یار و مددگار تیس لاشیں۔ ایک پیشہ ور ایڈیٹر مشورہ دیتا ہے کہ دوسری خبر زیادہ اہم ہے اس کو جگہ ملنی چاہیئے۔ لیکن پھر میڈیا کے مالک کی فون کال آتی ہے ۔ اور وہ کہتا ہے کہ ہم نے اخبار مہمند ایجنسی میں نہیں بیچنا نہ ہی وہاں سے ہمیں بزنس ملنا ہے۔ اسلیٗے کراچی پر فوکس کرو ۔ بلآخر باہمی مشورے سے ایڈیٹرز اور مالک حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہیں اور اگلے دن تیس لاشوں کو اخباروں کے پہلے صفحے پر دوسرے درجے کی خبر کے طور پر جگہ ملتی ہے ۔

واقعہ گزر چکا ہے لیکن خون اب بھی تازہ ہے ۔ مہمند ایجنسی کی گل مسجد میں جاں بحق ہونے والے تیس افراد کا خون ان کے ورثا کی آنکھوں سے اب بھی ٹپک رہا ہے ۔ گاوں کے ہر گھر میں سوگ جاری ہے ۔یہ نہیں کہ ہمارے میڈیا نے یہ سب پہلی دفعہ کیا ہو ۔ یہ تو ہر روز ہوتا ہے ۔ بار بار ہوتا ہے ۔ اور یہ سب کچھ دیکھ کر پشاور کا ایک معتبر اور درد دل رکھنے والا صحافی فدا عدیل یہ بولنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ’میری لاکھ کوشش رہتی ہے کہ میں پاکستانی بن کر رہوں لیکن مجھے بار بار یہ احساس کیوں دلایا جارہا ہے کہ میں پختون ہوں۔۔۔۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے