محترم جناب وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ ۔
امید یے کہ خیر سے ہوں گے ، عرض ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل جب آپ وزیر اعلٰی ہونے کو تھے تو آپ نے ایک اعلان کیا تھا کہ : آج سے سندھ کا ہر شخص خود کو وزیر اعلٰی سمجھے ۔
سیاسی بیان اکثر سیاستدان بھول جایا کرتے ہیں ، لیکن موہوم سی اک امید مجھے لاحق ہے کہ شاید آپ کو اپنا یہ پہلا بیان یاد ہوگا ، بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھئے گا کہ مرسل اور مرسل الیہ ذات واحد ہے ، خط لکھنے والے نے آپ کے بیان کے مطابق خود کو وزیر اعلٰی سمجھتے ہوئے اپنی ذات کو خط لکھا ہے لیکن مناسب تھا کہ آپ تک پہنچے ۔
آپ مجھ سے بہت بہتر جانتے ہیں کہ کراچی ملک پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی مانند ہے اور معیشت کا استحکام بطور خاص انڈسٹری پر موقوف ہوا کرتا ہے ، شہر قائد میں سائٹ انڈسٹریل ایریا اور کورنگی انڈسٹریل ایریا دو مشہور مقام ہیں جہاں انڈسٹری کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی وابستہ ہے جو کہ شہر کے مختلف علاقوں سے علی الصبح کورنگی کی جانب رخ کئے چل پڑتے ہیں ۔
شہر سے کورنگی کے لئے داخلہ 3 راستوں کے ذریعے ممکن تھا جو کہ اب گھٹتے ہوئے ایک تک آ پہنچا ہے ، شارع فیصل کو استعمال میں لاتے ہوئے آپ ملیر اور قائد آباد سے ہوتے ہوئے کورنگی تک پہنچ سکتے ہیں لیکن اس راستے کو رہنے دیں کیونکہ دراصل اس روٹ کو راستہ کہتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی ہے ، آپ اگر وجہ شرم جاننا چاہیں تو وقت نکال کر اس راستے کا دورہ فرمائیں ۔
دوسرا راستہ شارع فیصل ہی کو استعمال کرتے ہوئے ناتھا خان گوٹھ سے ہوتا ہوا شاہ فیصل کالونی اور پھر ایک پل کے ذریعے کورنگی سے منسلک ہے ، ملیر ندی پر واقع یہ اکلوتا پل شاہ فیصل کالونی اور کورنگی میں رابطے کا ذریعہ ہے۔
تیسرا راستہ شارع فیصل پر واقع ایف ٹی سی بلڈنگ سے کلفٹن اور پھر کورنگی تک پہنچاتا ہے ، یہ راستہ قدرے بہتر لیکن اندرون شہر سے آنے والوں کے لئے ایک طویل سفر ہے ۔
واحد مناسب راستہ ذکر کردہ 3 راستوں میں دوسرا راستہ ہے اور اسی جانب آپ کی توجہ طلب ہے کہ ملیر ندی پر واقع واحد پل بھی گزشتہ ایک ماہ سے ٹریفک کے لئے بند کر رکھا ہے اور وجہ ہے پل پر پڑھنے والا ایک چھوٹا سا گڑھا جسے 1 گھنٹے میں درست کیا جاسکتا تھا ، اس صورت حال سے آپ سندھ کے دارالخلافہ کراچی کی تعمیر و ترقی کی رفتار کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
مذکورہ پل کو استعمال کرنے والی ٹریفک جو یومیہ لاکھوں میں ہے قیوم آباد سے بلوچ کالونی کی طرف منتقل کی جاتی ہے جو اس روٹ کی ٹریفک میں ضم ہو کر دگنی ہوجاتی ہے اور نتیجہ :
” گزشتہ ایک ماہ سے عوام کورنگی سے گلشن اقبال تک پہنچنے میں 3 گھنٹے صرف کر رہے ہیں "
ٹریفک کی روانی اس قدر متاثر ہے کہ ہزاروں مریض ایمبولینسوں میں گھنٹوں ٹڑپتے ہیں اور مسافر اپنے جہاز تک پہنچنے کے لئے گھنٹوں قبل گھر سے نکلتے ہیں ۔
یقین مانئے مجھ سمیت ہر شخص خود کو وزیر اعلٰی سمجھ کر وہ وہ صلواتیں سناتا ہے کہ ۔۔۔۔!!!
جناب مراد علی شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیشک آپ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بہت مصروف سہی لیکن ذرا ایک منٹ نکال کر ایک نوٹس اس بابت لے لیں تو آپ کی ہم عوام پر مہربانی ہوگی ۔
خدا آپ کو بہتر طریقے پر عوام کی مکمل خدمت کی توفیق نصیب کرے ۔