قسم ہے کافر ارتقاء کی

ہاں وہ 27 اگست کی صبح، غامدی صاحب سے ملاقات، میرا نصیب بهی بنی تهی.شیخ سے یہ میری دوسری ملاقات تهی.پہلی بار لاہور سرسری مل پایا تها. پر مگر اب کی بارمجلس جم جم کے پهر جمی. ابرکرم کا بهلا ہو کہ اس روز اس شان سے برسا کہ ہمیں باہر نکلنے کا نہ چهوڑا. سو طے شدہ نشست کے علاوہ بهی ایک اہم نشست ہمارا مقدر ٹهہری. گو وہاں کی ساری انجمن ہی "انجمن خوب خیالاں” ہی تهی.پر ابهی اس کا تذکرہ ذرا بعد میں ہی ہونا ہے.
ابهی بتانا یہ تها کہ،
مجهے اللہ کے خاص بندوں کی خاطر بے حد عزیز ہے.جی میں آیا کہ اب کی بار ان کے احترام میں شیخ کے ساتھ کهنچی فوٹو چهپا دی جائے اورشیخ کا تذکرہ بهی گول کر دیا جائے.پر پهر یہ خیال آیا کہ خدا کے یہ خاص بندے اتنے سے بهی راضی ہونے کو نہیں.
سو ضبط سخن چہ معنی دارد.
سنیئے…!
شیخ آئے، تم ملے، میں ملا، سب ملے، تو کیا ہوا؟ آسماں پهٹا نہ قیامت ٹوٹی. زمین سلامت ہوائیں رواں.انسان انسانوں سے ملنے آیا جایا ہی کرتے ہیں. کبهی ملاقات علم سےنسبت رکهنے والوں میں بهی ہو جایا کرتی ہے. اس میں ایسا انہونا تو کچھ نہ تها، پر مگر اتنی سی بات پہ بهی حالت دگرگوں ہے تو ، اس لوح جہاں پہ پهرتے اللہ کے کچھ خاص بندوں کی؟
میں فیس بک پہ کیا آیا کہ کہیں "جلال آباد” میں دفن روندی ہوئی انائیں ہڈیاں چٹخاتے ہوئے اٹهیں اور شیخ کی پشت پیچهے عالمی ہاتھ دکها کر امر ہو گئیں.تو طبیعتیں ادهر ادهر کے غم غلط کرنے جناب غامدی پہ منہ مارے جا رہے. کیا کہنے کہ کہیں
"انجمن دشنام پسنداں” کا جلوس قطاراندر قطار ہوا اور داد کے نذرانے بٹورتا ہوا چلا گیا. چشم بد دور، ادهر سے خدائی فوج داروں کا اک دستار بردار قافلہ شیخ کے درپہ ہوا اور داڑهی ماپتا ہوا نکل گیا.کہیں کوئی شیخ کے ٹخنوں میں سر دے بیٹها تو نتیجہ پهر یہی نکلا کہ پائنچا مطلوبہ سطح سے نیچے پایا.پهر جب سر اٹهایا تو تب تک ارمانوں کا خون ہو چکا تها.کوئی صاحب چہرے کی بناوٹ سے بگڑ بیٹهے،تو کسی کو تصاویر کا انداز راس نہ آیا.
کسی کا نقطہِ اعتراض بچها کندها قرار پایا تو کسی کو سرینہ میں قیام ہضم نہ ہونے پایا. مفتیان گرامی قدر بهلا کیوں ایسے موقع پر خامشی کا گناہ کر جاتے. سو فتووں کے تیر ابهرے اور شیخ کا ایمان چیرتے ہوئے لا مکاں کو چل بسے.خدا کے ان خاص بندوں کی محنت رنگ لائی اور جاوید احمد غامدی نامی خدا کا بندہ
"مرتد، زندیق، کافر، استعمار کا ایجنڈ، متکبر، دین دشمن اور خبر نہیں کیا کیا قرار پایا”
اب..!
جب یہ سب ہو چلا تو مقدس مزاج انسانی سطح تک پلٹ جانے چاہیےتهے. پر مگر وہ پهر شکست خوردہ انا نہ ہوئی کهیل بچوں کا ہوا، سو ایسا ہوتا بهی تو کیسے ہوتا؟
چنانچہ…!
نامی گرامی خاصان خدا کی وال پہ جائیے سارا جلال آباد گرجتا ہوا اور قہر اگلتا ہوا پاو گے.
آپ…!
اعتراضات کی کهڑی کی گئی عمارتوں کی ایک ایک اینٹ کو ہاتھ میں تهامیے، ٹهونکیے بجائیے، جائزہ لی جیئے، پهر خلق خدا کو خبر کیجیے، کیا شیخ کے کسی موقف پر کہیں کوئی علمی نقد کسی شکل میں کسی کو مل پایا؟
علم و شائستگی کی بو باس کا کہیں کوئی گزر ہے..؟
کلام اخلاقی پیمانے پہ پورااترتا ہوا دکهائی دیتا ہے؟ مناقشے کو لپکی زبانیں استدلال کے سرمائے سے بہرہ ور ہیں..؟
سچ یہ ہے…!
علم بنا، عالمانہ حقوق پا سکنے کا ڈهب جان چکنے والی طبیعتیں اپنے اردگرد جمع شدہ "انجمن دشنام پسنداں” کو یہی چورن نہ چٹاتے پهریں تو ناچار کیا کریں؟
خلق خدا کو اپنے ساتھ جوڑے رکهنے کی خاطر علم کی دولت مفقود ہو تو، تقدس کا کل سرمایا اس کے سوا ہو بهی کیا سکتا ہے؟
آپ کے پاس دینے کو علم نہ رہا توکیا ہوا، دستار سمیت رخ انور دوسری طرف گهما دیجیے، تقدس کا شیرا بنائیے، جهوٹ کی جلیبیاں بنائیے، بہتانات کے شکر پارے تراشیے، پهر اس طرح کی جیے کہ اسی تقدس کے شیرے میں انہیں بگو دیجیے. دشنام کی چمٹی میں تهامتے جائیے اور تهال بهر بهر کرروبرودهر دیجیے. فکر و نظر کی تعطیلات گزارنے والا گاہکوں کا قافلہ قطار اندر قطار دکان پر بهیڑ بڑا کر رہے گا.چورن بٹے گا، جلیبی بکے گی، شکرپارہ بک کر رہے گا. یوں شائید اور کچھ نہیں تو کم از کم شکست خوردہ انا اک بار پهرتسکین کا جتن ہی کر گزرے گی .
پر مگر…
کیا کیجے کہ اس سب کے بعد بهی دلیل کی جنگ جیتنے کے امکان کا بهی کوئی امکاں نہیں.
تمہیں….!
یاد ہوگا جب تم نے ٹی وی تڑوا ڈالے تهے، تصاویر پهڑوا دی تهیں.
پهر بهی کافر ارتقاء تمہارے احترام میں پل بهر بهی نہ رک سکا تها. وہ بهی دن تهے کہ ٹی وی آن کرتے ہی قبر میں سانپ اتر آتے تهے.یہ بهی دن ہیں کہ ٹی وی آن کرتے ہی خاصان خدا ابهرآتے ہیں.
کیا تم بهول گئے؟
ان تصاویر کا کیا بنا جن سے فرشتے کنی کتراتے اور رحمت لانے سے انکار کرجاتےتهے، اب کیا ہوا کہ تقدس بینرز، پینافلیکسیزاور دیواروں پر جا چمٹا اور چمٹتا چلا گیا؟
جب تم عبرت پانے سے انکار پر جم چکے تو مثالوں میں اضافہ آخر کاہے کو کیا جائے..؟
کیا اب بهی دیکهتے نہیں،
کہ کس طرح ارتقاء کا پہیہ تمہارے فتوے روندتا اور دستار کچلتا ہوا کہاں سے کہاں جا پہنچا؟
کهول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ
پھر بتا
جو کہا، صحیح ہے کہ نہیں…؟
پر،
تم بهی بس اتنے عجیب ہو کہ ارتقاء سے لڑتے لڑتے عبرت کی صلاحیت بهی کهو بیٹهے، اوراس کا احساس تک نہیں.
بس سنو..!
یہ غامدی محض جهکے کندهوں یا کسی صورت مورت کی حامل شخصیت کا نام نہیں جس کے نک سک کی کجی بیان کر لینے سے بات بن پائے گی.
خوب جان لیجیے کہ،
غامدی، علم،استدلال، ادب، شائسگی ، وقار، سنجدگی اور متانت کا مجسم استعارہ ہے.
اب….!
اگر مقابلہ ہی کرنا ہے تو میں تمہیں خبر کرتا ہوں کہ
غامدی سے مقابلے کی ایک ہی صورت باقی ہے.
"آپ بس علم، شائستگی اور اخلاق میں اس سے بلند تر مقام پر پہنچ جائیے، پهر
یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تمہارے ہیں”
جو یوں کر سکو تو.
لیکن…!
اگر آپ یہ نہ کر سکے توارتقاء کا بے رحم پہیہ تمہیں کچلتا ہوا نکل جائے گا.
قسم ہے اس کافر ارتقاء کی نہ شیخ اکبر کی پرواہ کرتا ہے نہ مفتی اعظم کی. اس کی دربارمیں پہنچے تو سبهی ایک ہوئے.
یہ دنیا علم کی دنیا ہے، یہاں سانس لینے کو علم اور تکلم کو استدلال درکار ہے. جو اس سے بے نیاز ہو کر کارزار میں جا کودے جو بهی ہیں بس قابل رحم ہیں.
دارلافتاوں کا چکر لگا کیوں نہیں لیتے،
کئی گهسے پٹے، کچلے پهٹے فتوے تم سے کچھ کہہ رہے ہیں
"جو سن سکو تو سنو”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے